Fateha Khud Parhen (2)
فاتحہ خود پڑھیں
گندم کی وہ فصل جو پک کر تیار کھڑی ہو اور اچانک اُسے آگ لگ جائے تو کسان کی تڑپ کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اُس کے ہونے والے نقصان کی بھرپائی کا تخمینہ صرف کسان کے دماغ میں ہی چل رہا ہوتا ہے۔ آگ دیکھنے والے باقی لوگ آگ بجھانے میں کسی حد تک مدد یا تسلی اور دلاسے تو دے سکتے ہیں مگر فصل کے جل جانے کا دکھ صرف کسان جھیلتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ آگ، اُس کی فصل کے ساتھ ساتھ اُس کے کلیجے کو بھی جلا رہی ہوتی ہے۔
ایک شادی شدہ جوڑا جس نے بیس سال بغیر اولاد کے گزارے ہوں، اندازہ کیجیے کہ کن کن مصائب کا سامنا کیا ہوگا۔ عورت نے بانجھ ہونے کے طعنے سنے ہونگے تو کسی نے منحوس کہا ہوگا اور بیس سال کے بعد جب پہلی اولاد بیٹا ہوا ہوگا تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہوگا؟ یقیناً نہیں۔ وہ والدین تو صدقے واری ہونگے، ماں کیسے چوم چوم کر بیٹے کو رکھے گی۔ نہلائے گی، دھلائے گی، اچھے اچھے کپڑے پہنائے گی۔
لیکن یہ بیس سال بعد ملنے والی خوشی اگر اچانک سے بچھڑ جائے، بیٹا روح سے آزاد ہو کر مٹی کی چادر اوڑھ لے تو اُن والدین کے دکھ، درد کو کوئی چاہ کر بھی محسوس کر سکتا ہے؟ ان کے اندر چلنے والے طوفانوں کے جھکڑ کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ یہ دکھ صرف اُن کا ہی دکھ ہوگا۔ باقی سب زبان سے صبر کی دعا یا یہ کہہ دیں گے کہ دکھ میں برابر کے شکریک ہیں۔ لیکن سب صاف جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔ کسی کو کسی کے دکھ کی اونچائی کی بھنک بھی نہیں پڑتی کہ کتنا دکھ ہے؟
ہمارے ہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو فاتحہ خوانی، درود پاک پڑھنے یا قرآن پاک کی تلاوت کے لیے لوگوں کو بلایا جاتا ہے تاکہ پڑھ کے مرنے والے کی روح کو ایصالِ ثواب بخشا جائے اور ساتھ میں آنے والے تمام مہمانوں کے لیے خاطر تواضع کے لیے پکوانوں کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ میرا مدعا یہ ہے کہ مرنے والے کا دکھ باہر کے لوگ نہیں سمجھتے، وہ سمجھ ہی نہی سکتے۔ یہاں تک کہ رشتہ دار بھی اس چیز سے قاصر ہوتے ہیں۔ بیٹا جس کا مرا ہے صرف اُسی کا مرا ہوتا ہے۔ کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تو مرنے والے کے لیے ثواب کا اگر کچھ کرنا ہے تو آپ خود کریں۔ فاتحہ خود پڑھیں۔
کیونکہ جس درد، تکلیف اور نیت سے آپ پڑھیں گے کوئی دوسرا نہیں پڑھ سکتا۔ جس کرب سے دعا آپ مانگیں گے، کوئی دوسرا نہیں مانگے گا۔ باہر والوں نے تو خالی ہاتھ اوپر کرنے ہوتے ہیں اور اُن کے دماغ میں لیگ پیس کی تصویریں چل رہی ہوتی ہیں۔ وہ کیا جانیں گے کسی کے جانے کا دکھ۔ وہ کیا نیت سے کچھ پڑھیں گے یا دعا مانگیں گے؟ وہ تو دنیاوی باتیں بھی کریں گے اور ہنسیں گے بھی۔ اُن سے تو چہرہ تک افسردہ نہیں رکھا جاتا۔ وہ کیا مغفرت کی دعا مانگیں گے؟
اگر آپ کا اپنا کوئی مر جاتا ہے تو فاتحہ خود پڑھیں۔ درد کی شدت کا اندازہ آپ کو ہے دوسروں کو نہیں۔ اِسی لیے خدا کے ہاں بھی آپ کے دل اور نیت کی شدت ہی قبول ہوگی۔ یاد رکھیں کہ سرسری سے انداز کے ساتھ مانگی گئی دعا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔
خدا آپ کو حامی و ناصر ہو۔