Dimagh Ke Calculator Ka Ziada Istemal Mat Karen
دماغ کے کیلکولیٹر کا زیادہ استعمال مت کریں
کہتے ہیں کہ کسی شخص نے دو شادیاں کیں۔ ایک کی عمر پینتیس جبکہ دوسری اکیس سالہ دوشیزہ تھی۔ لیکن اُس شخص کے دل میں یہ وہم پیدا ہوگیا کہ اگر وہ دونوں بیویوں میں انصاف نہ رکھ پایا تو کسی ایک کے ساتھ زیادتی ہوگی اور اُس کا دل ایسا کرنے پہ راضی نہ تھا۔ وہ دونوں اُسے بہت عزیز تھیں۔ وہ شخص دن رات اِسی پریشانی میں رہنے لگا۔ وہ دونوں کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتا اور ایک دن اُسے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ اپنی دونوں بیویوں کو تیس تیس ہزار روپیہ دے کر ایک مہینے کے لیے غائب ہوگیا۔
جب مہینے بعد لوٹا تو پہلی بیوی کے پاس ابھی بھی چھ ہزار باقی تھے جبکہ نئی بیوی تیس ہزار خرچ کرکے بیس ہزار کا مزید ادھار لے چکی تھی۔ اُس شخص کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہوگیا۔ اُس نے سوچا کہ پہلی بیوی کے ساتھ برسوں کا ساتھ رہا ہے۔ وہ سمجھدار بھی ہے اور مخلص بھی۔ چیزوں کے متعلق اُس کی پرکھ اور تجربہ دوسری بیوی کی نسبت زیادہ ہے۔ وہ دنیاداری جانتی ہے، جینا جانتی ہے۔
جبکہ دوسری بیوی ابھی ناسمجھ ہے، بچت کرنا یا خرچ کرنا نہیں جانتی۔ اُسے ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے۔ اُسے اِس معاشرے کے رہن سہن اور رکھ کھاؤ کا پتہ نہیں ہے۔ وہ شخص سوچنے لگا کہ اگر میں دوسری بیوی کو چھوڑتا ہوں تو یہ بیچاری رُل جائے گی۔ کیسے جیئے گی۔ کہاں جائے گی؟ اِسے تو خرچ کرنا بھی نہیں آتا جبکہ پہلی بیوی انتہائی سگھڑ اور سمجھدار ہے۔
بالآخر اُس شخص نے اپنی پہلی بیوی کو یہ سوچتے ہوئے طلاق دے دی کہ یہ زیادہ مخلص، اور سمجھدار ہے۔ یہ اس زمانے کے ساتھ نبھاہ کر لے گی۔ کسی نہ کسی طریقے سے جی لے گی مگر دوسری چونکہ نادان ہے اُسے ابھی یوں چھوڑنا کسی طور بھی ٹھیک نہیں رہے گا اسی لیے اُس کے ساتھ رہنا زیادہ مناسب ہے۔ دوسری بیوی کو ابھی ایک سہارے کی ضرورت ہے اور یوں وہ شخص اپنی پہلی بیوی کو چھوڑ کر دوسری کے ساتھ رہنے لگ گیا۔
بےشک انسان خسارے میں ہے۔ اپنے ظاہری فائدے کے لیے ہمارے پاس لاکھ بہانے نکل آتے ہیں جبکہ ہم کم عقل ہمیشہ سے ہی خوبصورت گھاٹے کھانے کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ ہم ظاہری شکل و صورت کے دلدادہ، خوبصورت باطن سے منہ پھیرنے والے مطلبی لوگ ہیں۔ ہم ظاہر کے سگے بنتے ہیں، باطن کے نہیں۔ ویسے بھی باطن بانجھ ہوتا ہے، اس کا کوئی نہیں ہوتا۔
ہمارا معاشرہ کھلی کتاب کی مانند ہے۔ ہم وقتی فائدہ دیکھنے والے لوگ ہیں۔ لمبی ریس کے گھوڑے نہیں بنتے۔ اور اِسی وقتی لالچ کی وجہ سے بڑے گھاٹے کے سودے کر بیٹھتے ہیں مگر پھر بھی باز نہیں آتے۔ ہم لالچ میں اِس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ برسوں کے تعلق توڑ دینے میں بھی ذرا نہیں سوچتے۔ ہمیں رکھ رکھاؤ کا پاس کرنا بھی نہیں آتا۔ اِسی لالچ کی وجہ سے اپنے سگے، پیارے اور اچھے لوگوں کو کھو دیتے ہیں۔
رشتے ہوں یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہم لوگ ہمیشہ سے ہی لالچ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے فائدے اور غرض کے مطابق ہی سب بناتے ہیں کہ کسی کے ساتھ کہاں تک چلنا ہے۔ کیا ساتھ دینا ہے اور کب چھوڑنا ہے یہ فیصلہ ہمارا مطلب طے کرتا ہے۔ مروت بانجھ ہوگئی ہے اور تعلق کو خود غرضی کھائے جا رہی ہے۔ ہم خود اپنے دشمن ہیں، ہم خود اپنے آپ کو اکیلا کرنے پر تُلے ہیں۔ ہمارا گندہ باطن ہمارے سب رشتوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ سبھی رشتے مطلب کی بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ مطلب ختم ہو جائے تو سب ختم ہو جاتا ہے۔
کوشش کریں کہ دل کا کام دل کو کرنے دیں، دل کی جگہ دماغ کو مت لائیں اور دماغ سے دماغ والے کام ہی لیں۔ دماغ کو سمجھائیں کہ ہر جگہ کیلکولیٹر کھول کے نہ بیٹھ جایا کرے اور یہ بھی بتائیں کہ اگر رشتوں میں کیلکولیٹر آ جائے تو جواب منفی میں چلے جاتے ہیں۔ مثبت کچھ بھی نہیں رہتا۔ سب بکھر جاتا ہے۔