Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Dastbardaar Hona

Dastbardaar Hona

دستبردار ہونا

ایک گلاس کو اگر آپ دیر تک پکڑے رکھیں گے تو ایک وقت آئے گا جب آپ کو اُس گلاس کا وزن گِراں گزرنے لگے گا۔ ایسے وقت میں اُس گلاس سے دستبردار ہو جانا ہی آپ کے لیے بہتر ہوتا ہے۔

ہمارے روزمرہ کے معمولات میں بھی ایسی بہت سی چیزوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے جنہیں ہم پکڑے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے ایسا کرنے سے ہم مسلسل اذیت ہی محسوس کیوں نہ کرنے لگ جائیں۔

ہمیں یہ دستبردار ہونے والی عادت کو اپنانا ہوگا ورنہ زندگی کی دوڑ میں ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

اگر آپ کامیاب لوگوں کی کہانیاں پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اُن کی خُوبیوں میں سے ایک خُوبی یہ دستربرداری والی بھی ہوتی ہے۔ ہر وہ چیز جو آپ کا وقت برباد کرتی ہے آپ کو تکلیف دیتی ہے تو فوراً اُس سے دستبردار ہو جائیں۔

کسی کی صحبت میں اگر آپ کمفرٹ محسوس نہیں کرتے تو کوئی مجبوری نہیں ہے اُس کی صحبت میں بیٹھے رہنا۔ آپ دوری اختیار کر لیں اُس شخص سے۔

کوئی مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے تو خاموشی سے اُس شخص سے دستبردار ہو جائیں پھر چاہے وہ کوئی قریبی دوست یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

کیونکہ ایسے قریبی لوگوں کو آپ کے لیے اُمید کا چراغ ہونا چاہیے نا کہ ہر وقت وہ آپ کے حوصلے پست کرنے میں لگے رہیں۔

ایسے گھُن قسم کے اپنوں سے بچیں جو آپ کی آسانیوں اور سکون کو کھا جاتے ہیں۔

اِس دور میں اِس دستبرداری والی عادت کی بہت ضرورت ہے۔ اگر آپ اِس عادت کو نہیں اپناتے تو آہستہ آہستہ آپ ذہنی سکون سے ذہنی تناؤ کی طرف جانا شروع کر دیتے ہیں جس سے آپ کی ذاتی زندگی اور روزمرہ کے کام بہت متاثر ہوتے ہیں۔

انسان ہر چیز کو سنبھال کر رکھنا چاہتا ہے ہر چیز کا خیال رکھنا چاہتا ہے۔ آفس ہو یا گھر یا سوشل سرکل کی بات ہو انسان ہر معاملے میں خُود کو مکمل اور منظم رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے جس سے بعد میں وہ پھر دلبرداشتہ بھی ہو جاتا ہے کیونکہ بعض اوقات وقت اور حالات ہماری اُمیدوں پہ پورا نہیں اُتر پاتے۔

جب ہم باہر کی چیزوں کو منظم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ذہنی تناؤ اور کرب سے دوچار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ انسان ہر چیز کو نہیں سنبھال سکتا وہ ہر چیز میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ اِسی لیے پھر ہمیں اپنی زندگی کو تھوڑا ترجیحات کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے۔

ترجیحات پر عمل کرنے سے ہی انسان سکون میں رہ سکتا ہے اور جب بھی کوئی انسان اپنی ترجیحات کو سمجھ جاتا ہے تو پھر اُسے فالتو چیزوں سے دستبردار ہونے میں بھی آسانی ہو جاتی ہے۔ اُسے سمجھ آ جاتا ہے کہ ہر چیز تک رسائی بھی زندگی کا مزہ کِرکِرا کر دیتی ہے۔

جیسے مِڈل کلاس طبقہ اپنی بےجا خواہشات کی وجہ سے پِستا رہتا ہے۔ یہ طبقہ ہر وہ چیز حاصل کر لینا چاہتا ہے جو وہ امیر لوگوں کے پاس دیکھتا ہے۔

اِسی طرح کچھ امیر طبقہ بھی اپنے لالچ اور زیادہ سے زیادہ فیکٹریز بنانے کی چکر میں ذہنی تناؤ میں چلا جاتا ہے۔ جس سے وہ اپنی فیملی، دوستوں اور خُود کو بھی صحیح طرح سے وقت نہیں دے پاتا اور آہستہ آہستہ ذہنی تناؤ کی انتہا پہ جا پہنچتا ہے اور معاملہ سنجیدہ صورتِ حال اختیار کر جاتا ہے۔

جبکہ اِس کا بہت ہی آسان اور سادہ سا حل یہی ہے کہ بے جا چیزوں سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ آپ کوئی بھی ایسا قدم نہ اُٹھائیں جس کا بوجھ آپ کا سکون غارت کر دے۔ ترجیحات کے مطابق چیزوں کا استعمال کرنا سیکھ جائیں گے تو زندگی بھی آسان ہو جائے گی۔

یاد رکھیں کہ ہم اپنی زندگی میں تبھی سکون حاصل کر سکیں گے جب ہمیں اپنی ترجیحات کا علم ہوگا اور ہمیں چیزوں کو چھوڑنے میں یا اُن سے دستبردار ہونے میں کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا۔

Check Also

Qomon Ke Shanakhti Nishan

By Ali Raza Ahmed