Cement Ka Jungle
سیمنٹ کا جنگل
ہمارے دماغ نے جہاں ہمیں بہت سے فائدے دیے ہیں وہیں، اس نے بہت سے نقصانات سے بھی نواز رکھا ہے۔ جدت پسندی نے ہمیں فطرت سے کوسوں دور کر دیا ہے۔ ایجادات کے دور نے ہماری آنکھوں کو بڑے نقصان سے دوچار کر دیا ہوا ہے۔ ہماری پتلیوں کو اصل اور حقیقی چیزوں سے بد دل کر کے پکسل کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ایک تو اللہ اللہ کر کے کوئی حسین نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
تو ہم جھٹ سے اُسے پکسلز کے پنجرے میں قید کر لینے میں مگن ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں کو فطرت دیکھے زمانہ گزر چکا ہے۔ ہماری آنکھوں اور فطرت کے بیچ "کیمرہ" نامی دراڑ آ چکی ہے۔ ہم بےحد حسین اور دلکش نظاروں کو موبائلز کے فلٹرز سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں، جس کے بعد سے یقیناً فطرت ہم سے روٹھ گئی ہے۔ خدا نے ہمیں آکسیجن کی مشینیں مہیا کیں، جنہیں ہم نے کاٹنا شروع کر دیا۔
خوراک دینے والی مٹی پر بیج کی بجائے کنکریٹ کے بیج بونے لگ گئے۔ کنکریٹ کی بیج بونے سے گندم نہیں اُگا کرتی بلکہ سیمنٹ کے بڑے بڑے جنگل پیدا ہوتے ہیں۔ اِنسانی دماغ کی ریسرچ، محنت اور پیدا کی گئی جدت درخت نگلنے لگ گئی اور پیٹ بھرنے والی مٹی پر اونچی اونچی بلڈنگز کے اتنے بڑے پہاڑ کھڑے کر دیے کہ جن کو دیکھنے کے لیے گردن کو اوپر کرنا پڑتا ہے۔
کیا ہمیں اس نقصان کا اندازہ نہیں ہو پا رہا کہ ہم فطرت سے کتنے دور ہو رہے ہیں، ہمارے پیدا کردہ شہروں نے ہماری آنکھوں سے اُگتے سورج کا نظارہ بھی چھین لیا ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں مٹی کی بجائے سونا آ گیا ہے۔ کچے مکانوں اور ہوا دیتے درختوں کو مار کر ہم سیمنٹ کے جنگل میں بڑی مشکل سے سانس لے پا رہے ہیں۔ یہ پکی اینٹوں کی بھرمار ہم سے ہمارے بچوں کو بھی چھین رہی ہے۔
کھلے، کشادہ صحن اور کچی مٹی سے دوری ہمارے بچوں کے مصنوعی بچپنے کی وجہ بن رہی ہے۔ کوکو گھوڑے اور گارے سے بنائے گھروں کو ریت اور بجری نے آ لیا ہے۔ بچوں کے ہاتھوں میں نت نئے گیجٹس لگ چکے ہیں اور آنکھوں کو موبائل فونز اور شاید یہی وجہ ہے کہ مٹی کے غیر موجودگی نے ہمارے بچوں کی آنکھوں پر موٹے موٹے شیشوں والی عینک نامی چوکیدار بٹھا دیے ہیں کہ جن کے بغیر وہ کوئی کام نہیں کر سکتے۔
ہمارا خمیر مٹی اور فطرت سبزہ ہے۔ لیکن ہم نے خود پر ظلم کرتے ہوئے پکے اور بغیر سایہ دار جنگلوں کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ جہاں روایات، احساس اور رشتے آکسیجن کی کمی کے باعث بڑی مشکل سے سانس لے رہے ہیں۔