Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Bhook Tehzeeb Ke Adaab Mita Deti Hai

Bhook Tehzeeb Ke Adaab Mita Deti Hai

بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے

اِس دنیا کی سب سے بڑی ضرورت یا پہلی ترجیح خالی پیٹ کو بھرنا ہے۔ یہاں تک کہ محبت کی باری بھی بہت بعد میں آتی ہے، کیونکہ محبت تو بھرے پیٹ کے چونچلے ہوتے ہیں جبکہ خالی پیٹ میں سوائے پیٹ بھرنے کے اور کوئی سوچ نہیں آتی۔

خالی پیٹ کا درد بڑا اذیت ناک ہوتا ہے اور علاج سوائے روٹی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ نت نئی ایجادات، یہ فلسفے یہ دریافت سب کچھ کرنے سے پہلے پیٹ کا بھرا ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ بغیر روٹی کے دماغ بھی کسی کام کا نہیں ہوتا۔

ابّا کہا کرتے تھے کہ پُتر، کبھی دروازے پر کوئی بھوکا آ جائے تو اُسے دنیا جہان کے بھاشن سنانے نا لگ جانا بلکہ عزت سے بٹھا کر روٹی کھلا دینا کیونکہ بھوکے آدمی کے پاس سوائے بھوک کے اور کچھ نہیں ہوتا، تب اُس کی ضرورت صرف روٹی ہوتی ہے، کسی کی باتیں، دلاسے یا تسلی نہیں۔ کھلانے کا بڑا اَجر ہوتا ہے پُتر، اِس سے بڑی تو نیکی ہی کوئی نہیں کہ تم کسی بھوکے کو کھانا کھلا دو۔

یہ وہ بھیانک بیماری ہے کہ جس سے روزانہ کی بنیاد پر جانے کتنے ہی لوگ اِس دنیا کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ مرنے والوں میں سب سے زیادہ ریشو اِسی بیماری کی ہے۔

امیروں کے متعلق سوشل میڈیا ایسی خبروں سے بھرا ہوتا ہے کہ فلاں آدمی اتنا امیر ہے کہ اگر وہ چاہے تو اِتنے ملکوں کو خرید سکتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ کاش وہ امیر لوگ ملک نہ خریدیں بلکہ کچھ بھوکے لوگوں کی بھوک مٹانے کا بندوبست کر دیں۔ کاش وہ کہہ دیں کہ آج سے فلاں غریب ملک کے لوگوں کی بھوک میرے ذمے۔ آج سے کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔

بھوک کا پہیہ بڑی تیزی سے گھومتا ہے۔ انسان کو ہر چند گھنٹے بعد روٹی کی طلب ہونے لگتی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ کئی کئی گھنٹوں، یہاں تک کہ بھوک کا دورانیہ دنوں تک چلا جاتا ہے مگر اُس بھوکے کو روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ کس قدر بڑا المیہ ہے کہ جس کے متعلق بین الاقوامی سطح پر بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔

کس قدر درد ناک صورتحال ہے کہ امیر کی تجوریاں فُل جبکہ انسانوں کے پیٹ خالی ہو رہے ہیں۔ ہم چوکھے سیانے بھوکے کو روٹی دینے کی بجائے چار سنا کر بھگا دینے کو آسانی سمجھ لیتے ہیں۔

کبھی سوچا ہے کہ اگر یہی سلوک ہمارے ساتھ خدا کرنا شروع کر دے تو پھر؟ کیا اللہ باتیں سناتا ہے؟ اپنی نعمتیں جتاتا ہے؟ اپنے احسانات کی گنتی کرواتا ہے؟ نہیں ناں؟ تو پھر ہم انسان ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ایسا تو خدا بھی نہیں کرتا جو ہم کرتے ہیں۔

کبھی ہم پہ بھوک اُترے تو احساس ہو کہ بھوک کس قدر اذیت ناک ہوتی ہے۔ خالی پیٹ کے مروڑ کیا ہوتے ہیں؟

تو آئیں اور آج عہد کریں کہ بھوک مٹانے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور دعا بھی کریں گے کہ اللہ بھوکوں کے پیٹ بھرے اور کسی کو کسی کا محتاج نہ کرے۔

اس کی تقسیم کا معیار وہ خود ہی جانے
بھوک ہوتی ہے کہیں، رزق کہیں دیتا ہے

علی رومی

Check Also

Ikhlaqi Aloodgi

By Khalid Mahmood Faisal