Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Beti Dhor Dhangar Nahi Hoti

Beti Dhor Dhangar Nahi Hoti

بیٹی ڈھور ڈنگر نہیں ہوتی

وہ شادی کے ٹھیک پندرہ دن بعد مائیکے آئی تھی۔ بس روئے جا رہی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ امی ابو آپ لوگوں کی بہت یاد آتی ہے۔ وہ لوگ بہت اچھے ہیں مگر میرا وہاں دل نہیں لگتا۔ باپ نے سر پہ ہاتھ رکھا اور بولا کہ دھی رانی میرے بس میں ہوتا تو تمہاری شادی ہی نہ کرتا۔ سینے سے لگا کر رکھتا ساری زندگی مگر یہ اِس ذمانے کی وہ رسم ہے کہ جسے نبھانا ہی پڑتا ہے۔ باپ ڈھیر دعائیں دیتے ہوئے باہر کسی کام سے نکل گیا۔

وہ پھر ماں کے گلے لگ کے رونے لگی۔ ماں نے بھیگتی آنکھوں سے بیٹی کو مضبوطی سے کلیجے سے لگایا اور کہا کہ بیٹی میں تمہیں تب سے جانتی ہوں جب تم بولنا بھی نہیں تھی سیکھی تو اِسی لیے مجھے سب سچ سچ بتا دے کہ آخر بات کیا ہے؟ گھر سے لڑ کے آئی ہو نا؟

بیٹی نے فوراً ماں کی طرف دیکھا جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔ ماں نے بیٹی کے آنسو صاف کیے اور پوچھنے لگی کہ بتاؤ کیا ہوا ہے؟ وہ پہلے سے زیادہ رونے لگ گئی۔ ہچکیاں جب بڑھیں تو ماں سے بھی صبر نہ ہوا اور اُس کی آنکھیں بھی دوپٹہ گیلا کرنے لگیں۔

ماں میں نے کتنا کہا تھا کہ مجھے شادی نہیں کرنی۔ وہ لڑکا میرے لائق نہیں ہے مگر آپ لوگوں کو تو بس اُن کی زمینیں نظر آ رہی تھیں۔ دولت نے آپ کی آنکھوں پہ پٹی ڈال دی تھی اور اِسی وجہ سے آپ دونوں نے میری ایک نہیں تھی سنی اور مجھے جہنم میں پھینک دیا۔ بیٹی کی حالت دیکھ کر ماں کا کلیجہ سڑنے لگا۔

ماں وہ لڑکا شرابی ہے۔ نشے کی حالت میں جب پاس آتا ہے تو کوفت ہونے لگتی ہے۔ بدبو کی وجہ سے اُلٹی آتی ہے۔ پھر اُس نے ٹانگ اور بازو دکھائے، جن پر سگریٹ کے نشان تھے۔ وہ ہچکیوں سے بتانے لگی کہ بہت درد ہوتا ہے جب وہ سگریٹ لگاتا ہے۔ میں اُسے جب شراب پی کر پاس آنے سے روکتی ہوں تو سگریٹ سے جلانے لگتا ہے۔ بال نوچتا ہے۔ مارتا بھی ہے مجھے۔

ماں کی حالت غیر ہو رہی تھی لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ماں نے شام کو اپنے شوہر سے بات کی تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ وہ اُس لڑکے کو جان سے مار دے گا۔ اُسے زندہ نہیں چھوڑے گا۔

بیوی نے سمجھایا کہ غلطی ہماری ہے۔ ہم نے ہی صرف دولت دیکھی اور کردار کو نظر انداز کر دیا۔ ہم ہی اپنی بیٹی کے گنہگار ہیں۔ اُس کے مجرم ہیں۔ اب اگر آپ جذباتی ہو کر کوئی ایسا ویسا قدم اُٹھا لیں گے تو ہم ماں بیٹی کا کیا بنے گا؟ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور کچھ آگے کا سوچیں۔۔!

ہمارا معاشرہ ایسی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہم دولت کے چکر میں کردار اور سیرت بھول جاتے ہیں جس کا خمیازہ ہماری بہن بیٹیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہم کیوں صبر سے کام نہیں لیتے۔ کیوں دیکھ بھال کر رشتہ نہیں کرتے؟ ہماری بیٹیاں انسان ہیں کوئی ڈھور ڈنگر نہیں کہ کسی کے ساتھ بھی یہ سوچ کر بھیج دیا جائے کہ کھانا پینا اچھا مل جائے گا۔ یہ سانس لیتی مکمل انسان ہیں۔ ان کے سینے میں دل، حساسیت اور عزتِ نفس کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ اِنہیں اپنی مرضی، انا اور مردانگی کی بھینٹ مت چڑھائیں۔

Check Also

Imran Khan Ya Aik Be Qabu Bohran

By Nusrat Javed