Badbudar Muashre Ki Bhaddi Shakal
بدبودار معاشرے کی بھدی شکل
آج آفس واپسی پر ایک جگہ کچھ رَش دیکھا تو رُک کر ماجرا دیکھنے چلا گیا۔ میں اکثر یہ بات کرتا ہوں کہ روڑ پر اگر کہیں کوئی رش یا کوئی حادثہ دیکھیں تو ایک بار لازمی رک کر معلومات لے لیا کریں ہو سکتا ہے کہ کوئی جاننے والا نکل آئے۔ خیر آگے گیا تو بائیک کا کار کے ساتھ ایکسیڈنٹ کا واقعہ تھا۔ گاڑی والے تین لوگ، بائیک والے کو مارنے پہ تلے تھے جبکہ دو چھوٹے چھوٹے بچے اُن کو روک رہے تھے کہ ہمارے بابا کو مت ماریں، ہمارے بابا کو مت ماریں۔
بیچ میں لوگ پڑ کر لڑائی کو مزید بڑھنے سے روک رہے تھے۔ مگر وہ تین لوگوں میں سے کوئی ایک آدھ آگے بڑھ کر اس بیچارے کو مارنے میں کامیاب ہو ہی جاتا تھا۔ مجھے گاڑی والوں کی سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ ایسا کون سا غصہ تھا کہ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ وہ کس قدر جاہل انسان تھے جو اتنی بھی عقل نہیں تھی کہ باپ چاہے لاکھ غلط ہو اُسے بچوں کے سامنے نہیں مارنا چاہیے۔ روتے بچوں کا حال مجھ سے تو نہیں دیکھا جا رہا تھا۔ خیر تب تک مزید لوگ بیچ میں پڑے اور انہوں نے معاملہ رفع دفعہ کروا دیا۔
ہم کیسے حیوان، مردار اور بدبودار معاشرے کا حصہ ہیں کہ جس کی قسمت میں شعور نہیں ہے۔ جنہیں تمیز نہیں ہے، جنہیں احساس نہیں ہے کہ بچوں کے سامنے اُن کے باپ کی کیا ویلیو ہوتی ہے اور ایسا کرنے سے ایک باپ اپنے بچوں کے سامنے کتنا شرمندہ ہو سکتا ہے۔ لیکن تف ہے ایسے لوگوں پر کہ جن کی عقلوں پر تکبر کے پردے لٹک رہے ہیں۔ جنہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ رَسی ابھی ڈھیلی ہے اور وہ بھول بیٹھے ہیں کہ کسی پہ کیا جانے والا ظلم، رسی کی آخری سانس ثابت ہوا کرتا ہے۔ ظلم کے بعد رسی کی پکڑ سخت ہو جاتی ہے۔
میں عجیب ڈھیر سوالوں کا پلندہ اُٹھائے وہاں سے آگے بڑھ گیا۔