Bachpan Ka Aik Waqia
بچپن کا ایک واقعہ
سردیوں کے دن تھے۔ اسکول سے بھی چھٹیاں تھیں تو سارا دن کرکٹ کھیلتے گزرتا، سب سے بڑے بھائی مولوی ٹائپ تھے یعنی کہ پکے نمازی اور اتنے پکے نمازی کہ تہجد گزار تھے اور مسجد کی چابیاں بھی اُنہیں کے پاس ہوتی تھیں۔ اب میرا تو ہر دن عید کی طرح گزرتا تھا۔ صبح سے شام تک کرکٹ اور تب شاید جمعہ یا ہفتے کی رات کو نو بجے انڈیا چینل پہ فلم آیا کرتی تھی۔
تو رات کو دیوار کے ساتھ سیڑھی لگا کر اپنے تائے کے گھر فلم دیکھنے چلا جاتا تھا۔ اب میرے بڑے بھائی صاحب کو میری یہ روٹین ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ وہ اکثر کہتے کہ نمازیں پڑھا کرو اور فلمیں مت دیکھا کرو، جس کا اظہار وہ اکثر سیڑھی غائب کر کے بھی کر لیا کرتے تھے۔ میں جب اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو اُنہوں نے امی کو شکایت کر دی کہ اظہر کوئی نماز نہیں پڑھتا اور سارا سارا دن یا تو کرکٹ کھیلتا ہے یا رات کو فلمیں دیکھتا ہے۔
بھائی جان کی لگائی آگ سے امی جان کا پارہ آسمان کو چھونے لگا۔ اُنہوں نے تُرنت مجھے بلوا کر یہ حکم صادر کر دیا کہ تم جب تک نمازیں پڑھنا شروع نہیں کر دیتے تب تک تمہاری کرکٹ اور فلمیں دیکھنا بند، اور میں اپنا سا منہ لیکر کمرے میں چلا گیا۔ سردیوں کی گہری رات میں بھائی اب عشاء کی نماز کے لیے روزانہ مجھے ساتھ لیکر جانا شروع ہو گئے۔
ایک دن اللہ جانے مجھے کیا سوجھی کہ میں نے گھر سے مسجد تک کے راستے میں بھائی جان کو دو تین لطیفے سنا ڈالے۔ بھائی صاحب تھے تو سخت مزاج ہی، مگر جب کبھی اُنہیں ہنسی کا دورہ پڑتا تو بات گھنٹوں تک چلی جایا کرتی تھی۔ اور اُس دن بھی وہی ہوا۔ بھائی جان نے وضو کر کے جب اذان دینا شروع کی تو آخری کلمات پہ وہ قابو نہ رکھ پائے اور اُن کی ہنسی چھوٹ گئی۔
بس پھر کیا تھا، جو جو نمازی بھی مسجد میں داخل ہوتا سب سے پہلے بھائی جان سے یہی سوال پوچھتا کہ آج خیریت تھی میاں؟ آج خیریت تھی میاں؟ بھائی نے خیر جیسے تیسے نماز پڑھی اور جب گھر تشریف لائے تو امی جان سے یہ کہہ دیا کہ آج کے بعد میں اظہر کو اپنے ساتھ لیکر نہیں جاؤں گا، اور شکر ہے کہ گھر کوئی وجہ بتائے بغیر ہی مجھے اپنے ساتھ لیجانے سے منع کر دیا تھا ورنہ امی جان نے جو پھینٹی لگانی تھی، اُس کی گونج دریا پار تک سنائی دینی تھی۔