Aik Sacha Mazahiya Qissa
ایک سچا مزاحیہ قصہ
پانچ دوستوں کا ایک گروپ تھا۔ پانچوں اپنی اپنی فنی صلاحیتوں میں ماہر تھے۔ اُن میں ایک چوہدری تھا جو کہ مجروں کا بےحد شوقین تھا اور جب کہیں بھی مجرا ہوتا تو چوہدری سب سے آگے آگے ملتا اور نوٹوں کی بارش کرنا اُس کو باقی سب تماش بینوں سے ممتاز بناتا تھا۔
ایک دفعہ پانچوں کسی ہوٹل میں بیٹھے مچھلی نوش فرما رہے تھے کہ ایک دوست نے بتایا کہ یار میری شادی ہونے والی ہے تو باقیوں نے جھٹ سے کہا کہ ٹھیک ہے مجرا بھی کروا لیں گے لیکن چوہدری نے کوئی بات نہ کی۔ سب حیران کہ مجروں کی بات ہو اور چوہدری خاموش رہ جائے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اللہ خیر ہی کرے۔ سب نے پوچھا کہ چوہدری کیا ہوا؟ گھر سب خیر تو ہے نہ؟ مجروں کی بات پہ تم نے کوئی ری ایکٹ ہی نہیں کیا؟
چوہدری بولا کہ یار ابھی حالات نہیں ٹھیک اور میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ تم سب تو جانتے ہو کہ تماش بینی میں چوہدری کا ایک نام ہے تو اِسی لیے میری مانو تو کچھ دن ٹھہر جاؤ۔ تب تک حالات بھی بہتر ہو جائیں گے اور شادی کا مزہ بھی آ جائے گا۔ مگر جس دوست کی شادی تھی وہ نہ مانا باقیوں نے بھی یہی کہا کہ کوئی بات نہیں چوہدری اگر کسی ایک مجرے پر تم پیسے نہیں بھی پھینکو گے تو کوئی بات نہیں۔ اِس بار ہم تھوڑے زیادہ پھینک دیں گے۔ چوہدری خیر منہ لٹکائے وہاں سے گھر چلا گیا۔
اور وہ دن بھی آ گیا جب میدان سجا دیا گیا۔ پریاں پنڈال میں اُتریں اور سر سنگیت کی بڑھتی دھمک پہ وہ اپنا خون تیز کرنے لگیں۔ پیروں کی پائل چھم چھم اور نازک کمریں ٹھمکوں کے بل سے حرکت میں آنے لگیں۔ جب محفل کی گرمی بڑھی تو چوہدری نے حسبِ معمول اپنے رنگ دکھانے شروع کر دیے۔ وہ پیسے پھینکنے کا ہُنر جانتا تھا سو وہ ہنر کا استعمال کرنے لگا۔ سب سے حسین رقاصہ اُس کے گُن گانے لگی۔ وہ بس چوہدری کے آس پاس ہی ناچنے لگی اور چوہدری بھی دل کھول کر پیسوں کی بارش کرنے لگا۔ ہر طرف چوہدری چوہدری کا ڈنکا بجنے لگا۔
سب دوست حیران تھے کہ یار چوہدری نے تو منع کیا تھا اور اب اِتنے زیادہ پیسے کہاں سے آ گئے؟ خیر سب نے یہی سمجھا کہ شاید چوہدری نے اپنے شوقِ تکمیل کے لیے کہیں سے بندوبست کر لیا ہو۔ محفل خوب جمی اور اِس میں سب سے اچھا رنگ چوہدری نے بھرا تھا۔ کیا مہمان اور کیا رقاصہ سب ہی عش عش کر اُٹھے تھے۔ محفل برخاست ہوئی اور پنڈال چند منٹوں بعد ہی خالی رہ گیا۔ کچھ گھنٹوں بعد جس نے محفل کا انتظام کیا تھا اُس کو ناچنے والوں کی کال آ گئی اور وہ چوہدری کا پوچھنے لگے کہ وہ کون تھا؟
وہ ہمارا دوست ہے اور خیر ہے گھر پہنچتے ہی چوہدری کے نام کا ورد شروع کر دیا ہے۔ وہ ہے بھی ایسا ہی ہر بار محفل میں جان ڈال دیتا ہے۔ ہمارا ہی دوست ہے۔ پریشان نہ ہوں، آپ کی اگلی کسی محفل میں بھی اُسے حاضر کر دیں گے۔ دوست نے ہنستے ہوئے کہا۔ اوہ مرو سارے، ہم نے چوہدری کی تعریف کرنے کے لیے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے کہ اُس نے سارے پیسے نقلی پھینکے ہیں۔ ہم پچھلے پانچ گھنٹوں سے اصلی اور نقلی نوٹ الگ الگ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تہانوں لوے مولا۔ آج کے بعد ہمیں نہ بلانا کسی محفل میں اور نہ ہی ہم آئیں گے۔ ہم غریبوں کو لوٹا ہے تم لوگوں نے۔ اُنہوں نے خوب کھری کھری سنا کر فون بند کر دیا۔
دوست حیران پریشان کہ یار چوہدری نے یہ کیا چن چڑھا دیا۔ اُس نے فوراً چوہدری کو فون کیا اور پوچھا تو چوہدری نے کہا کہ ہاں نقلی ہی پھینکے ہیں تو اور کرتا بھی کیا۔ میں نے تم لوگوں کو بکواس کی بھی تھی کہ میرے حالات نہیں ٹھیک مجرا نہ کرواؤ۔ مگر تم لوگوں نے میری ایک نہ مانی تو پھر میں کیا کرتا؟ میں اپنی تماش بینی کی عادت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا تو بس اِسی لیے نقلی نوٹ لا کر پھینک دیے۔ اب کرتے رہیں وہ گنتی۔
اور پھر ایک زور دار قہقہہ لگا کر چوہدری نے کال کاٹ دی۔