Abdullah
عبداللہ
کتابیں پڑھنا ہمیشہ سے میرا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے اور میں اکثر یہ بات کرتا ہوں کہ کتاب زندگی ہے، جس قوم یا شخص کا کتاب سے واسطہ نہ ہو وہ فلاح نہیں پا سکتا۔ کتاب وہ نشہ ہے کہ جس کے بغیر سانس لینے میں بڑی دقت محسوس ہونے لگتی ہے۔ کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ بات چیت اور اظہار کا سب سے بہترین ذریعہ بھی ہے۔
اندر کا خالی پن اور محبت کے زنگ آلود تالے کھولنے کے لیے کتاب سے بہتر چابی کوئی مل ہی نہیں سکتی تو اِسی لیے میں نے اِس بار ہاشم ندیم صاحب کی عبداللہ 3 پڑھنے کا ارادہ کیا۔ میں عبداللہ ناول کے پہلے دونوں حصے بہت پہلے پڑھ چکا ہوں اور اب تیسرا پڑھا ہے۔ ہاشم ندیم صاحب ملک کے جانے مانے لکھاری ہیں، جنہیں ادبی خدمات کی وجہ سے حکومتی سطح پر تمغہء حسن کارکردگی سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ اِن کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور "عبداللہ" ان کا سب سے مشہور ناول ہے جسے نوجوان نسل نے بےحد پسند کیا ہے۔
یہ ناول مجھے بھی بےحد پسند ہے، ہاشم ندیم صاحب نے تینوں حصوں میں روانی اور یکسانیت کو بڑی مضبوطی کے ساتھ برقرار رکھا ہے اور یہ چیز ان کے بہترین قلم کار ہونے کی نشانی ظاہر کرتی ہے۔ یہ ناول محبت کے پتھریلے راستوں سے ہوتا ہوا اپنی منزل کی جانب لمبا سفر طے کرتا ہے اور یہ سفر ہی اصل میں اس ناول کی شان و شوکت ہے۔ میں نے جب اسے پڑھنا شروع کیا تھا تو میرا اندر کسی ہینڈ فری کی طرح گُچ مچ، گُچ مچ ہوتا چلا گیا تھا کہ جس کی گانٹھوں نے میرے دل کو دبوچتے ہوئے میری سانسوں کی رفتار میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔
محبت کوئی پہاڑہ نہیں ہے کہ جسے انگلیوں پر گِن لیا جائے یہ تو ساری زندگی کا تیاگ مانگتی ہے۔ خودی اپنی نفی کرتے ہوئے محبوب کی اجارہ داری کو دل و جاں سے قبول کرتی ہے۔ دل و دماغ محبوب کے وَش میں چلا جاتا ہے۔ انسان کا خمیر محبت سے گوندھا گیا ہے اور جب محبت دل پر دستک دیتی ہے تو کلیجہ نکالے بغیر واہس نہیں لوٹا کرتی اور اِسے عبداللہ کی بدقسمتی کہیے کہ محبت نے پہلی نظر میں ہی وہ کاری وار کر دیا تھا کہ جس کے بعد اُسے سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا تھا۔ عبداللہ چیختا رہ گیا تھا کہ ہائے میں گیا، میں گیا۔ مگر محبت نے زرا ترس نہ کھایا اور عبداللہ کے دامن کو ایک اذیتوں بھرے لمبے سفر کے انگاروں سے بھر دیا۔
عبداللہ نے اپنی روح محبوب کے حوالے کر دی اور جسم درگاہ کے اور یہی سے اُس کا اصل سفر شروع ہوا۔ عبداللہ نے محبت کے اس سفر میں کتنی تکلیفیں جھیلیں یا ہجر و وصال کی کتنی صدیوں کا درد سہا، یہ تو ناول پڑھ کر ہی آپ کو پتہ چلے گا۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کہانی میں محبت نے پورا پورا ہدیہ وصول کیا ہے اور عبداللہ کو زہرہ سے ملوانے کے عوض ٹھیک ٹھاک اور کڑے امتحانوں سے گزارا ہے، جس میں اُس نے سی تک نہیں کیا۔
جہاں اس ناول کی کہانی، تخیل اور روانی جاندار ہے وہیں اِس ناول کے ڈائیلاگ اتنے شاندار انداز میں لکھے گئے ہیں کہ کہانی پڑھتے وقت آپ مصنف کو داد دیے بغیر نہیں رہ پاتے اور واہ واہ کرتے ہوئے جھوم اُٹھتے ہیں۔ آپ ہر لمحے خود کو اسی ناول کا کردار سمجھنے لگ جاتے ہیں اور محسوس ہونے لگتا ہے جیسے آپ کہانی کے ساتھ ساتھ خود چلے رہے ہیں، سفر کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہے تو یہ ناول آپ کو ایک بار ضرور پڑھنا چاہیے۔ آپ ہاشم ندیم کے لکھے کو سراہے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔