Zindagi Mein Kawa Banna Hai Ya Shaheen?
زندگی میں کوا بننا ہے یا شاہین؟
آج کل کے نوجوانوں اور بچوں کو تو نہ سہی لیکن ہماری اور ہمارے بعد کی نسل کو طوطا مینا کی کہانی ضرور یاد ہوگی۔ سیدھی سادی کہانی تھی، پہلے قصے کہانیاں سنانے کا عام رواج تھا۔ قصہ کہانی نہ بھی ہو تو ایسی بات بتائی جاتی جو یاد رہتی اور زندگی میں کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی کام آتی۔
ہم اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ ہمارے ایک اسکول ٹیچر نے زمانے کے سرد و گرم دیکھے تھے۔ کبھی کبھی ہمیں وہ کوئی قصہ سناٹے یا کوئی دلچسپ بات بتاتے اور پھر اس سے کوئی نتیجہ نکالتے اور ہم ان کا منہ دیکھتے رہ جاتے۔ اس وقت تو ان کی باتیں کبھی اچھی تو کبھی سمجھ میں نہ آتیں۔ بڑے ہوئے، دنیا کو برتا تو پھر ان کے سنائے قصے، کہانی اور باتیں یاد آنے لگیں۔ انہیں قصہ گوئی میں کمال حاصل تھا۔ چہرے کے تاثرات، آواز میں زیروبم غرض وہ منظر کشی کرتے جیسے سب آپ کے سامنے ہو رہا ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم سب بس قصہ ہی بہت غور سے سنتے۔ باقی مطلب وطلب سے ہمیں کوئی مطلب نہ ہوتا۔
ایک دن کہنے لگے: شاہین سے تو آپ سب واقف ہی ہوں گے؟
سب نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
کہنے لگے: پتہ ہے صرف کوا اس پر حملہ کرنے کی جرات بلکہ حماقت کرتا ہے۔ وہ بھی پیچھے سے۔ سامنے سے اس کی اتنی ہمت کہاں؟
سب نے سر کے اشارے سے پوچھا کہ کیوں تو بولے: کوے کی کیا اوقات، شاہین ٹو اسے چیر پھاڑ کر رکھ دے۔ کوا پرواز کے دوران اس کی گردن پر بہت زور زور سے اپنی نوکیلی چونچ سے ٹھونکیں مارتا ہے۔ شاہین کو تکلیف تو ہوتی ہے مگر وہ اسے کچھ نہیں کہتا۔
ایک لڑکے نہ کہا: سر یہ کہاں کی عقلمندی ہوئی؟ بولے: اونچی اڑان کے پرندے اپنی قوت پرواز سے شکست دیتے ہیں۔ شاہین اپنے پر اور پھیلا لیتا ہے اور تیزی سے بلندی کی جانب پرواز کرتا ہے۔ میں نے پوچھ لیا: اس سے کوے کو کیا فرق پڑنا ہے؟
ٹیچر نے ایسے مسکرائے جیسے انہیں جواب مل گیا ہو، بولے: بہت فرق پڑتا ہے۔ شاہین کی پرواز جتنی اونچی ہوتی ہے، اوپر اتنی ہی آکسیجن کم ہوتی ہے۔ شاہین کے لیے کیا مسئلہ ہے، وہ تو پرندہ ہی اونچی اڑان کا ہے۔ کوے کی سانس اکھڑنے لگتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا یے کہ کوا نیچے کی جانب قلابازیں کھاتا ہوا گرتا ہے۔ علامہ اقبال نے شاہین کے لیے تو کہا ہے: تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔
قصہ ختم ہو تو بولے: کیا سبق سیکھا آپ نے اس قصے سے؟ سب نے اپنے طور پر کوئی نہ کوئی جواب دیا لیکن کوئی اصل بات اخذ نہ کر پایا۔ کچھ دیر سوچتے رہے۔ میرا خیال ہے وہ ہمیں سمجھانے کے لیے آسان ترین جملوں اور مثالوں کا انتخاب کر رہے تھے۔
کہنے لگے: اس قصے میں کوا اور شاہین کون ہیں؟
ہم سب نے یک زبان ہو کر کہا: پرندے؟
ہنسے اور کہنے لگے: تم اپنی زندگی میں کوا بننا چاہو گے یا شاہین؟
پوری کلاس نے اونچی آواز میں کہا: شاہین!
بولے: شاہین بننا ہے تو زندگی میں آنے والے کووں کو اہمیت نہیں دینی ہوگی۔
ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ ہم کوا کیسے بن سکتے ہیں۔ ہماری ذہنی پریشانی کو سمجھ گئے۔
اطمینان سے ایک ایک لفظ ہر زور دے کر سمجھایا: زندگی میں وہ لوگ جو آپ پر بے جا تنقید کریں، آپ کو بلا وجہ تنگ کریں، چھوٹی چھوٹی اور غیر ضروری باتوں پر چیلنج کریں اور آپ یہ سب بات جان جائیں تو ایسے لوگوں کی باتوں، چیلنجز اور رویوں پر اپنا وقت اور توانائی ضائع نہ کریں۔ ان سے کبھی نہ الجھیں، انہیں نظر انداز کریں۔ یہ لوگ آپ کو آگے جاتے دیکھنا نہیں چاہتے۔ شاہین سے سیکھیں۔
ہمارا لڑکپن برقرار تھا۔ پوچھ ہی لیا کہ ہمارے تو پر ہی نہیں، ہم کیسے اڑ سکتے ہیں؟
مسکرا کر گویا ہوئے: آپ کی سوچ، آپ کے ارادے، منزل پا لینے کی خواہش اور جستجو شاہین سے کہیں زیادہ قوت پرواز رکھتی ہے۔ آپ جس قدر اونچی پرواز پر ہوں گے۔ یہ لوگ آپ کی زندگی سے کوے کی طرح نکلتے چلے جائیں گے، آپ اپنے کاموں میں اتنے مصروف ہوں گے کہ ان کی آوازیں، آپ کے کانوں تک پہنچ ہی نہیں پائیں گے۔ کوشش کریں کسی کی زندگی میں کوا بن کر داخل نہ ہوں۔ شاہین بنیں جسے اپنے کام سے کام ہوتا ہے۔ شاہین کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ کوے سے لڑتا نہیں بلکہ اسے اس مقام پر لے آتا ہے کہ اسے خود کو بچانے کی فکر پڑ جائے۔
سوچتا ہوں اس زمانے کے ٹیچرز بھی کتنے عظیم تھے۔ کورس کی کتابیں نہ پڑھایا کرتے تھے۔ زندگی پڑھایا اور سکھایا کرتے تھے۔