Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Hazaron Kharishen Aisi Ke Har Kharish

Hazaron Kharishen Aisi Ke Har Kharish

ہزاروں خارشیں ایسی کہ ہر خارش۔۔۔۔

ہم میں سے کس نے یہ کہا یا سنا نہ ہوگا!

تمہیں کیوں خارش ہو رہی ہے؟
تمہیں کس بات کی کھجلی ہے؟

تو صاحبو یہ جان لیں کہ خارش یا کھجلی ہمارے ملک کی قومی بیماری ہے جو لاعلاج ہے۔ ملک بھر میں اس کا راج ہے۔ عالم سے عالم اور جاہل سے جاہل اس کا خوگر ہے۔ بڑے بڑے اطباء اور حکماء نے ہاتھ اٹھا لیے ہیں کیونکہ وہ خود کھجانے میں مبتلا ہیں۔ خارش چھوت کی بیماری نہیں لیکن اس ملک میں سب کے لیے چھوٹ ہے۔

خارش آپ کی جلد پر ہو تو بدنی اور اگر یہی خارش کسی دوسرے کے لیے دماغ میں ہو تو سازش بن جاتی ہے اسی لیے جسے سازشی تھیوری کہا جاتا ہے۔ وہ دراصل خارشی تھیوری کہلاتی ہے۔ وطن عزیز اس تھیوری پر چل رہا ہے۔ عبدل بھائی کا کہنا ہے کہ اس ملک کا واحد مسئلہ خارشی تھیوریاں ہیں۔ جب تک یہ خارشی تھیوریاں موجود ہیں۔ آپ بطور معاشرہ خجلات، جھنجھلاہٹ اور جھنجناہٹ کا شکار رہیں گے۔

گھروں کے معاملات ہوں یا تھڑوں کی بیٹھک، سیاسی ایوانوں کی اٹھا پٹخ ہو یا ٹی وی ٹاک شوز کے موضوعات یہی تھیوریاں ہماری چولیں ہلا رہی ہے۔ میرے خیال سے خار سے خارش نکلی ہے۔ اس لیے جس کو آپ سے جتنی زیادہ خار ہوگی وہ اتنی ہی بڑی خارشی تھیوریز کے کر آئے گا۔ حسرت موہانی کے شعر میں ایک لفظ کی تبدیلی سے مضمون کا مزا رج کے آئے گا۔

مقرر کچھ نہ کچھ اس میں رقیبوں کی بھی "خارش" ہے۔۔

بدنی سازش میں آپ کھجاتے اور سکون پاتے ہیں اور دیکھنے والے آپ کو دیکھ کر مزے لیتے ہیں۔ اچھا بھلا بندہ بندر لگنے لگتا ہے اور میرا ذہن ڈارون کی یہ تھیوری کہ انسان پہلے بندر تھا، کی طرف کھجلانے لگتا ہے۔ کھجانے کے بھی انداز ہوتے ہیں۔ کچھ کھجا کر دیکھتے ہیں تو کچھ دیکھ کر کھجاتے ہیں۔ اکیلے میں کھجانے اور سب کے سامنے کھجانے میں بھی بڑا فرق ہوتا ہے۔ اکیلے میں کھجائیں تو ساری تیزی ہاتھوں میں اتر آتی ہے۔ سب کے سامنے کھجائیں تو لگتا ہے خارش کو پھول کی پنکھڑی سمجھ کر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔

خارش کی بہت قسمیں ہوں گی مگر یہ بات حلفیہ کہی جا سکتی ہے کہ سب سے مزے کی خارش پیٹھ کی ہوتی ہے کہ جہاں آپ تمام تر کوششوں کے باوجود دست دراز نہیں ہو پاتے۔ ایسے میٹھی چبھن / چلن ہوتی ہے کہ آپ دست درازی میں ناکامی کے بعد کسی بھی دیوار پر خود کو رگڑنے لگتے ہیں۔ یہ وہ رگڑا ہوتا ہے کہ جو آپ خود کو دیتے ہیں۔ جتنا رگڑیں اتنا مزا جو دیکھنے والوں کے لیے مزاح بن جاتا ہے۔ خارش میں ساری تہذیب اور شخصیت کا بھرم دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بندے کو ہانڈی میں پکے کسی کھانے کی ظرح بھگار دیا جا رہا ہو۔

کہتے ہیں کہ رقص وہ لہر ہے جو نبض کی حرکت اور جسم کی جنبش سے پیدا ہوتی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ یہ لہر جسم میں خارش کی کھجن اور ہاتھوں کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے یہ کہا اور دیکھا جا سکتا ہے ہر بندہ پیدائشی رقاص ہوتا ہے۔ خارشی رقص میں کوئی نقص نہیں ہوتا۔ بہت زیادہ بے باکی سے نقص امن کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ رقص جب مرد میں حد سے گزر جائے تو ہنگامی بے ہنگمی پیدا ہوتی ہے اور مرد و زن کے بیچ کی کیفیت نمودار ہوتی ہے۔ بندہ بغیر ہینڈل والی سائیکل کا بے قابو پہیہ لگتا ہے۔

خارش کا مزاج بھی زلزلے والا ہے۔ مرکز جسم کا کوئی بھی حصہ ہو سکتا ہے لیکن محسوس پورے جسم کو ہوتی ہے۔ متاثرہ شخص تمام کام چھوڑ بیٹھتا ہے۔ ایک مرتبہ جی بھر کر کھجانے کے بعد بھی آفٹر شاکس آتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ پیدائشی طور سلسلہ خارشیہ سے بیعت ہوتے ہیں اور پوری زندگی اس دربار میں حاضر رہتے ہیں۔ اس عطا میں کسی کی کوئی خطا نہیں ہوتی۔ لاکھ مریم کے لیپ لگا لیں۔ خارش کے منہ پر ٹیپ نہیں لگ پاتا۔ خارش کو گولی دینے کے لیے جتنی گولیاں کھا لیں۔ خارش کوئی سازش برداشت نہیں کر پاتی اور لوگ دل برداشتہ ہونے کے بجائے اسے جلد پر داشتہ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔

خارش کی بھی ایک طرز نگارش ہوتی ہے جو آپ کی جلد پر تحریر ہوتی ہے۔ ناخن کو قلم بنا کر جو سرخ لکیریں آپ کھینچتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف سے کرب و تڑپ سے گزرا ہوگا۔ کچھ آرٹسٹک لوگ کہتے ہیں کہ انسانی جلد پر تجریدی آرٹ کے نمونے صرف خارش سے ہی ممکن ہیں کیونکہ ان میں انتہا درجے کی بے ساختگی اور دل شکستگی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ خارشی آرٹ جلد پر جلدی کا متقاضی ہے۔ جب خارش ہو تو ہاتھ نہ روکیں اور پھر دیکھیں کیا کیا خارش پارے آپ کے دست فن کو آشکار کرتے ہیں۔ جس قدر سرخی اور جلن ہو سمجھ لیں کہ آپ اتنے ہی خارش داد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

بدنی خارش گو کہ سب کا انتہائی ذاتی معاملہ ہے لیکن کبھی کبھی دوسروں کے ساتھ بڑی زیادتی پیدا کر دیتی ہے۔ کوئی آپ سے چپکا کھڑا ہو اور ہلنے کی بھی گنجائش نہ ہو اور آپ کو بغلی خارش آ دبوچے۔ ساتھ والے کو لگتا ہے کہ آپ کسی بھی وقت اس کی بغل میں بھی دخل دے دیں گے۔ کھانے کے دوران ناک میں خارش ہو تو طے نہیں ہو پاتا کہ نوالہ کہاں ڈالنا ہے۔ سر میں خارش ہو تو بندہ یہ سوچ کر لوگ جوئیں نہ سمجھ لیں۔ بڑی خاموشی سے اپنا کام کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ کسی اہم نکتے کی کھوج میں ہے۔

کہتے ہیں کہ ہتھیلی پر خارش یا کھجلی ہو تو سمجھ لیں کہ پیسہ آنے والا ہے۔ اس لیے جس کو ہو وہ فورا ہتھیلی چومتا ہے یا اس ہر زبان پھیرتا ہے۔ اب اگر یہی خارش یا کھجلی تلوے ہر ہو تو کیا پیسہ نکلنے والا ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں۔ ہم نے کتنے ہی لوگوں کو اس غرض سے بڑے لوگوں کے تلوے چاٹتے دیکھا ہے۔

سب سے بڑی مصیبت اس وقت ہوتی ہے کہ خارش وہاں ہو جائے کہ جہاں آپ صرف اکیلے میں کھجا سکتے ہیں۔ آپ بڑا کسمساتے ہیں، پہلو بدلتے ہیں اور بہانے بہانے سے وہاں ہاتھ لے جاتے ہیں۔ خارش کی نمائش نہیں چاہتے ہیں لیکن تاڑنے والے تاڑ جاتے ہیں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

کوئی مانے نہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ نیند، اجابت اور خارش کا مزا اپنے گھر میں ہی آتا ہے۔

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Haram e Pak Se Aik Ajzana Tehreer

By Asif Masood