Sunday, 15 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Bachpan Ki Iftari Aur Walid Ki Yaad

Bachpan Ki Iftari Aur Walid Ki Yaad

بچپن کی افطاری اور والد کی یاد

یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم بہن بھائی چھوٹے تھے۔ روزہ والد (کوثر سلطان پوری) کا ہوتا لیکن سب سے کم افطاری والد ہی کیا کرتے۔ ان کی خواہش یہی ہوتی کہ افطار میں سب کچھ ہو۔ دستر خوان سجا ہو۔ والدہ کی خواہش ہوتی کہ والد صحیح طرح افطار کر لیں مگر وہاں تو ہم جیسے بھوکے بیٹھے ہوتے۔ اسے جھپٹتے جیسے ایک نہیں بلکہ دو تین دن کا روزہ ہو۔

والدہ ہمیں خوب آنکھیں دکھاتیں مگر والد صاحب ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا کرتے اور ہمارے حملے جاری رہتے۔ آج سوچتا ہوں تو والد پر بہت پیار آتا ہے اور آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ لگتا ہے یہ کون سی نعمت تھی کہ جس کی ہم زندگی میں قدر نہ کر سکے۔

میں نے گزشتہ دنوں ایک ویڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ میری کردار سازی میں والد صاحب کا سب سے اہم کردار تھا۔

مجھ سے کسی نے کہا تھا: تم باپ کا مقدمہ بہت لڑتے یو۔

میں نے جواب میں کہا تھا: بے شک ایسا ہی ہے۔ ہمارا معاشرہ اسے ایک پیسہ کمانے والے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ اس کی عظمت کو مانتا ہی نہیں۔

کچھ لوگ ممکن ہے اسے ماں سے تقابل سمجھتے ہوں۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔ بے شک ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ باپ جنت میں جانے کا بہترین دروازہ ہے۔

میرے والد صاحب نے ساری زندگی شرافت اور ایمانداری کے سائے تلے گزار دی اور ہمیں اپنے کردار سے عملی تربیت دی۔ میں لڑکپن بلکہ نوجوانی تک بہت چلبلا اور لاپروا قسم کا تھا لیکن بات وہی ہے کہ ماں باپ سے زیادہ آپ کو کون جان سکتا ہے۔ انہوں نے نوجوانی کے دنوں سے ہی میری تربیت کا آغاز کر دیا تھا۔ مجھ سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے، میری رائے جانتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مجھ سے مشورہ کرنے لگے۔ مجھے رائے دینے کا کہنے لگے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ میری کسی رائے کو اپنا فیصلہ بنانے لگے۔ سچی بات ہے مجھے اس وقت بڑی الجھن سی ہوتی کہ والد صاحب یہ سب کیوں کرا رہے ہیں۔ میں ہچکچاتا، چاہتا کہ مجھے involve نہ کیا جائے۔ میں ان کی اولاد اکبر تھا۔ کہا کرتے تھے میرے بعد تم میرے وارث ہو۔ تمھیں گھر کے معاملات دیکھنے ہیں۔ میں گھبرا جاتا۔ اس وقت تو میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی نہ تھا کہ باپ مر جاتے ہیں لیکن باپ جانتے ہیں کہ انہیں مر جانا اور اولاد کو اس سے پہلے کچھ سمجھا جانا ہے۔

والد صاحب کی گفتگو بہت مختصر اور بامعنی ہوتی۔ اردو بہت شستہ بولتے۔ ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا تھا۔ اردو اور سنسکرت ہر عبور تھا، شاعر تھے۔ دوھے بھی کہا کرتے تھے مگر اس حوالے سے گوشی نشینی مزاج میں تھی جو کبھی نہ گئی۔ والد صاحب کی اولاد سے شفقت بھی عجب تھی۔ کبھی لفظوں سے اس کا اظہار نہ کیا کرتے۔ سوچتا ہوں کہ اگر ان کی باتیں اس وقت سمجھ لیتا تو آگے کی زندگی میں بڑی آسانی ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں آج بھی اپنے والد کو بہت یاد کرتا ہوں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ وہ مجھ سے باتیں کر رہے ہیں۔

میں آج بھی خانگی امور کے فیصلوں میں اپنی ذات کو مقدم نہیں رکھتا۔ مجھے یہی ایک خیال رہتا ہے کہ وہ مجھ سے روز محشر پوچھیں گے: کیوں میاں جو آپ کو سمجھا کر آیا تھا۔ جس طرح میں نے سب کو ایک رکھا۔ آپ نے اس میں کوتاہی تو نہیں کی۔ آپ سے تو مجھے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ میرے والد صاحب دو طرح سے خاندانی تھے۔ ایک تو وہ تعلق کہ کس خاندان سے تھا۔ دوسرے یہ کہ اپنی ذات اور مفادات سے بالا تر ہو کر خاندان کو جوڑے رکھا۔

میرے مزاج میں ہر کام کو ادھورا چھوڑنے کی عادت تھی۔ یقینا وہ اس سے ناخوش یوں گے مگر کبھی سختی نہ کرتے۔ بڑے پیار سے اور موقع محل دیکھ کر سمجھاتے۔ ایک دن کہنے لگے کہ آپ کی مثال اس فٹ بالر کی ہے کہ جو مخالف ٹیم کے ہر کھلاڑی جو شان دیتا ہوا گول کیپر کے پاس ڈی میں پہنچتا ہے۔ جہاں صرف گول کیپر اور فٹبالر ہوتا ہے اور وہ بال کو گول پوسٹ میں ڈالے بغیر آجاتا ہے۔

والد صاحب زندگی بھر پیسے کے لئے نہیں بھاگے۔ مالی طور پر مشکل وقت بھی دیکھا۔ خوشحالی بھی آئی مگر والد صاحب کا طرز زندگی نہیں بدلا۔ سادگی وہی رہی۔ اس زمانے میں کہ جب 500 روپے کا نوٹ نیا نیا آیا تھا، والدہ سے کہیں گر گیا۔ یہ پتہ نہ تھا کہ گھر سے باہر گرا ہے یا گھر میں۔ والدہ پریشان کہ اس وقت یہ بڑی رقم تھی۔ سکون سے بیٹھے اخبار پڑھتے رہے اور والدہ سے بولے: میں نے زندگی میں کبھی حرام نہیں کمایا اس لیے فکر نہ کریں، مل جائے گا۔ واقعی ایسا ہی ہوا وہ نوٹ گھر میں ہی مل گیا۔

مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے۔ دولتمند شخص امیر نہیں ہوتا۔ جس کے پاس علم کی دولت ہو وہ امیر ہوتا ہے۔ یہ بات ایسی گھٹی میں پڑی ہے کہ نکلتی ہی نہیں۔ میرا دولتمندی کو سمجھنے کا پیمانہ یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے کبھی کسی سے نہ مرعوب ہوا اور نہ ہی احساس کمتری کا شکار ہوا۔۔

والد صاحب کی افطاری سحری کی باتیں والدہ اور ہم سب اکثر یاد کرتے ہیں۔ سحری میں کیا کھانا ہے؟ افطاری میں کون سی شے کتنی کھانی ہے؟ ہمیں سب پتہ تھا۔ آج والد نہیں مگر ان کی یادیں اور باتیں ذہن میں تازہ ہیں، رہنمائی کے لئے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر آپ یاد رکھنا چاھیں تو والدین کبھی آپ سے جدا نہیں ہوتے۔ آپ چاھیں تو ان سے مشورہ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کی آواز آپ کے دل سے آئے گی۔ دل کی گواہی سے بڑی تو کوئی گواہی نہیں۔ جنہوں نے آپ کو دل سے چاھا ہو، ان کی آواز دل سے نہیں آئے گی تو کہاں سے آئے گی۔

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Chuha Aur Sone Ke Dinar

By Muhammad Saqib