Aulaad, Baap Ke Kandhon Par Khari Imarat
اولاد، باپ کے کاندھوں پر کھڑی عمارت
میں نے کہیں پڑھا تھا۔ ماں کو پیار آئے تو بچے کو سینے سے چمٹا لیتی ہے۔ خود میں چھپا لیتی ہے۔ باپ کو پیار آئے تو اپنے کاندھوں پر بٹھا لیتا ہے۔ سارا بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ کہتا ہے دنیا کو مجھ سے بھی آگے دیکھو۔ بچپن کا یہ عمل زندگی بھر چلتا ہے۔ لڑکپن، نوجوانی، جوانی یہاں تک آپ کی ادھیڑ عمری آجاتی ہے۔ نہ ماں کی محبت تھکتی ہے اور نہ ہی باپ کے کاندھے دکھتے ہیں۔
کامیابیاں آپ کو ملتی ہیں۔ پیار ماں کو آتا ہے۔ دعاوں کا آنچل اور پھیلا دیتی ہے۔ جن کاندھوں پر آپ کھڑے ہوتے ہیں ان پر موجود سر فخر سے بلند ہوتا ہے۔ ان کاندھوں کو ایک نئی توانائی ملتی ہے۔ آپ تو کاندھوں سے اوپر ہوتے ہیں۔ آپ کو کیا پتہ اس کاندھے والے کی آنکھوں میں خوشی کے کتنے نظر نہ آنے والے آنسو ہوتے ہیں۔
کبھی کبھی لوگوں کی تعریف سے آپ کو لگتا ہے کامیابی کی اس عمارت کے آپ ہی معمار ہو۔ حقیقت میں اس کی بنیاد باپ کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔ آپ تو گارا تھے، زندگی کے گرم و سرد کی آپ کو کیا خبر تھی۔ اس نے شب و روز محنت سے گارے کو اینٹوں میں تبدیل کرکے آپ کو خوشنما عمارت بنا دیا جس کا سارا بوجھ بھی اس نے اپنے کاندھوں پر لیا۔ جب آپ نے چاھا کہ کامیابی کی نئی منزلیں دسترس میں ہیں تو بڑے حوصلے سے کہا: بنیاد کو کبھی کم زور نہ پاو گے۔
بنیاد کا مزاح بھی عجب ہوتا ہے، وہ چھپی رہنا چاھتی ہے۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوتا کہ جب لوگ عمارت کو داد و تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آپ سے زیادہ خوش بنیاد ہوتی ہے۔ وہ چاھتی ہے سارا کریڈٹ آپ کو دے دیا جائے۔
جب آپ اپنی زندگی کی بنیاد کو اپنے کاندھوں پر سپرد خاک کرنے جاتے ہیں تو یہی بنیادی بات کہتی ہے: بھول مت جانا۔ تمھارے پیروں نے سب سے پہلے ہمارے کاندھوں پر ہی کھڑے ہونا سیکھا تھا۔ تم گھٹنیوں چلے، ڈورے بھاگے مگر رہے ہمارے کاندھوں پر ہی۔ ہم تو خیر تمھیں دعاوں میں یاد رکھیں گے ہی تم بھی پمیں دعاوں میں رکھنا۔ کچھ ایسا نہ کرنا جس سے ہمیں تکلیف پہنچے۔ آتے رہنا، ہمیں تمھارا انتظار رہے گا۔