Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Aaj Shab e Ashoor Hai, Chiragh Bujha Diya Jaye Ga

Aaj Shab e Ashoor Hai, Chiragh Bujha Diya Jaye Ga

آج شب عاشور ہے۔ چراغ بجھا دیا جائے گا

میں کوئی مولانا نہ عالم، خطیب نہ ذاکر، تاریخ داں نہ تجزیہ نگار اس لئے نواسہ رسول امام حسینؑ کو کبھی کسی مذہب، مسلک، عرب کی مخصوص قبائلی گروہ بندی و عصبیت وغیرہ کی نظر سے نہیں دیکھتا اور نہ ہی اتنی عظیم المرتبت شخصیت سے متعلق کسی خانے، پیمانے یا میزان کی ضرورت ہے۔ حق و باطل کے معرکے میں یہ سوال بھی اٹھا دیا جاتا ہے کہ حق پر کون تھا؟ دونوں طرف اذان و نماز تھی۔ تو پھر فرق کیا تھا؟ صبر! یہ صبر بر بنائے مجبوری نہ تھا۔ بقائے دین کے لئے صبر اختیاری تھا۔

کربلا کا پیغام ہمہ گیر اور آفاقی ہے۔ اس لئے اسے سمجھنے، نتیجہ اخذ کرنے اور راہ عمل متعین کرنے کے لئے اول و آخر انسانیت کی اشد ضرورت ہے۔ انسانیت تمام مذاہب بالخصوص الہامی مذاہب کی اساس ہے۔ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اسلامی تعلیمات میں انسانیت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ حقوق العباد کیا ہے؟ انسانیت ہی تو ہے۔ تعصب کی تمام تر عینکیں لگانے کے بعد بالاخر ہر صاحب انصاف شخص یہی کہے گا یا کم از کم یہ ضرور سوچے گا کہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا اسوہ امام حسینؑ ہے۔ لاکھ اختلافی حوالے موجود ہوں۔ دلائل و تاویلات کے انبار لگا دیں مگر واقعہ کربلا کے ہونے سے، ظلم رواں ہونے سے انکار تو ممکن نہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ امام عالی مقام سے یزید کی کوئی ذاتی جنگ نہیں تھی۔ اسی لئے جب گورنر مدینہ نے امام عالی مقام سے بیعت کا کہا تو امام عالی مقام نے ارشاد فرمایا: مجھ جیسا شخص یزید جیسے شخص کی بیعت نہیں کر سکتا۔ یہ ایک آفاقی پیغام ہے جس کو ہم ذاتی اغراض و مقاصد کے کسی خانے میں نہیں رکھ سکتے۔

مولانا ابو اعلی مودوی کا یہ بیان انمٹ رہے گا۔ ایک شخص نے مولانا مودودی سے سوال کیا: جب سب لوگوں نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو امام حسین نے کیوں نہیں کی؟

مولانا مودودی نے فرمایا: آپ کا سوال ہی درست نہیں۔ سوال اس طرح ہونا چاہیئے کہ جب امام حسینؑ نے یزید کی بیعت نہیں کی تو باقی لوگوں نے کیوں کی؟ اس سوال سے دیگر سوالات بھی ذہن میں آتے ہیں۔ جب امام عالی مقام نے بقائے دین کے لئے مدینہ چھوڑا تو باقی لوگوں نے کیوں نہ چھوڑا۔ امام عالی مقام نے حج کو عمرے میں تبدیل کیا تو باقیوں نے ایسا کیوں نہ کیا۔

بعض کتب میں روایت ہے کہ امام عالی مقام نے اپنے بچپن میں ایک شخص کو بفضل خدا 7 بیٹے ہونے کی دعا دی تھی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان 7 بیٹوں میں سے ایک بیٹا معرکہ کربلا میں امام عالی مقام کے جاں نثاروں میں شامل ہے۔ امام عالی مقام سب کے لئے جود و سخا ہیں، عطا ہی عطا ہیں۔ کہتے ہیں امام عالی مقام نے کبھی کسی کے سوال کو رد نہیں کیا۔ بس ایک سوال بیعت فاسق تھا جس کا انکار کیا وہ بھی ذات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف بقائے دین کے لیے۔

چلیں ! مکہ چلتے ہیں

امام عالی مقام نے سوال بیعت کے بعد 27 رجب کو اہل خانہ و دیگر افراد کے ساتھ دن کے اجالے میں مدینہ سے کوفہ کا رخ کیا۔ راستے میں مکہ مکرمہ قیام کیا۔ لوگوں سے ملے۔ اہل مکہ کو ساتھ چلنے کو کہا۔ کچھ افراد ساتھ بھی ہوئے لیکن اکثریت خاموش رہی۔ امام عالی مقام نے اتمام حجت کیا تاکہ تاریخ کے صفحات پر کوئی یہ عذر پیش نہ کر سکے کہ ہم تو لاعلم رہے۔ نواسہ رسول امام عالی مقام کی قبولیت دعا سے سب واقف تھے۔ مکہ میں کربلا جانے سے گریزاں کتنے ہی افراد نے امام عالی مقام سے اپنے لئے انفرادی دعائیں کرائیں۔ امام عالی مقام نے سب کے لئے دست دعا کو بلند کیا اور یہ افراد اپنی دعاوں / مرادوں کو پا گئے۔

چلیں ! کربلا چلتے ہیں

شب عاشور ہے۔ امام عالی مقام نے جاں نثاروں کو بلایا۔ جانتے تھے کہ صبح کی پو پھٹتے دونوں طرف نمازیں ادا کرنے کے بعد معرکہ حق و باطل سجے گا اور عصر عاشور تک کربلا کی زمین سرخ ہو جائے گی۔ لوگ لشکر جمع کرتے ہیں۔ لشکریوں کو روکتے ہیں مگر امام عالی مقام نے تو کچھ اور ہی کردیا۔ سب سے کہا کہ فوج یزید میرے خون کی پیاسی ہے۔ جس کو جانا ہے چلا جائے۔ یہ کہہ کر امام عالی مقام نے چراغ بجھا دیا تاکہ کسی جانے والے کو خفت یا شرمندگی کا سامنا نہ ہو۔ چراغ دوبارہ روشن کیا تو 71 کے 71 روشن چہرے جہاں تھے وہیں موجود تھے۔ پائے استقامت میں کوئی جنبش نہ تھی اور پھر روز عاشور ریگزار کربلا پر شہادتوں کے وہ سرخ گلاب کھلے کہ اسلام کے چمن کو تا قیامت کے لیے گل و گلزار کر گئے۔

میں کربلا جانے سے گریزاں اہل مکہ اور کربلا کے شہداء کو دیکھتا ہوں تو ایک یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ اہل مکہ کو امام عالی مقام سے جتنا اپنی استطاعت کے مطابق چاہیئے تھا، لے لیا۔ کربلا کے شہداء کو امام عالی مقام چاھیئے تھے۔ اس لئے انہوں نے امام عالی مقامؑ سے کچھ نہیں مانگا بلکہ یہی کہا کہ 70 مرتبہ بھی اگر مار کر زندہ کئے جائیں تو آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔ امام عالی مقام نے اہل مکہ کی حاجات کے لئے دست دعا بلند کیا اور ان افراد کی تمام دعائیں مستجاب ہوئیں۔ اب امام عالی مقام کی نظر میں ان شہداء کا مقام سوچیں۔ کیا کیا عطا نہ کیا ہوگا۔

آج شب عاشور ہے۔ امام عالی مقام کسی وقت چراغ بجھا دیں گے۔ آئیں! خود کو خیمہ امام عالی مقام میں محسوس کریں اور فیصلہ کریں کہ آپ امام عالی مقام کی دعوت کے باوجود کربلا نہ جانے والے اس دور کے اہل مکہ میں سے ہیں یا شہدائے کربلا کی فکرکے پیروکار؟

حسینؑ سے چاہیئے یا حسینؑ چاہیئے؟

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf