Jungle Udas Hai
جنگل اداس ہے
برادرعزیز رانا محمد ادریس، زندگی کا یہ جنگل واقعتاً آپ کے بغیر ایک بار پھر سے اداس ہوگیا ہے بہت اداس، برف پوش پہاڑوں پر پڑنے والی دودھیاء سفید اور یخ برف جیسی تاثیر اور بے ذائقہ سی اداسی کا پہلا براہ راست واسطہ تو اس وقت پڑا تھا جب میرے دل کے بہت قریب میرا پہلا دوست وزیر خان تمہارے طرح اچانک ہی اس جنگل میں مجھے چھوڑ کر ہمیشہ کیلئے کہیں چلا گیا تھا موت، میرے ایک ہاتھ سے وزیر خان کو چھین کر لے گئی اور دوسرے ہاتھ پر یہی اداسی دھر گئی تھی روح میں اتر کر مجھے لیرولیر کردینے والی اس اداسی نے بعد اذاں تو جیسے اس گھر کی راہ ہی دیکھ لی ہے۔
والد محترم محبوب سے بھائی انارگل خٹک، شفیق بھابی، پروفیسر فیروز شاہ، چاچا بٹ، حاجی اعظم خان و حاجی سالم خان ملک محمد انور پلے خیل ناصرخان انوار حسین حقی چودھری شمیم اور پتہ نہیں کتنے خوبصورت دوست ایک ایک کر کے کہیں کھو گئے؟
رانا صاحب اس اداس جنگل میں آپ کی اس اچانک گمشدگی نے مجھے پہلے سے کہیں زیادہ تنہا کردیا ہے ابھی گزشتہ ہفتہ ہی میری ایک پوسٹ پر کمنٹس میں آپ کا ایک ایک لفظ میرے لئے ڈھارس اور ڈھال بنا جب آپ نے لکھا
"سر کیوں شرمندہ کرتے ہیں آپ ہر اعتبار اورلحاظ سےبڑے اور ہمارے لیئے انتہائی قابل احترام ہیں، آپ اس بےحس معاشرے کا کفایہ ہیں، آپ آوازوں کے قحط کے اس دور میں ضمیر کی زندہ گواہی کی علامت اور سچائ کے آسمانی نغموں کا استعارہ ہیں "
برادرعزیز آپ کے بعد میں سوچتا ہوں کہ اس جنگل (بے حس معاشرے) میں آوازوں کے قحط میں میری لولی لنگڑی اور نحیف سی آواز پر اب کون کان دھرے گا آپ کے بعد میری ہم نوائی کیلئے میری پیٹھ کون تھپتائے گا؟
ادریس بھائی مجھے معلوم ہے آپ ایک سیلف میڈ انسان تھے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اخلاقی اعتبار سے یرقان زدہ معاشرے میں کسی سیلف میڈ کیساتھ کیا کچھ ہوتا ہے؟
ہمارے حضور صلیٰ اللہ ہو علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ خالی ذہن شیطان کا اکھاڑہ ہوتا ہے ہماری بدبختی ہے کہ جس جنگل میں ھم رہتے ہیں اس کے ڈی۔ این۔ اے میں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی کسی کو فرصت نہیں مگر دوسرے گریبانوں کے چھیتھڑوں سے صدیوں سے اندر کے حسد و بغض اور احساس کمتری کی سلگتی آگ کو ھم مزید بھڑکانے میں شانتی ڈھونڈتے چلے آرہے ہیں۔
بہت عرصہ پہلے ادریس بھائی، محکمہ تعلیم سے وابستہ ھمارا ایک سیلف میڈ دوست آپ ہی کی طرح شہر کی آنکھ کا تارہ بنا اور ضلعی انتظامیہ وغیرہ میں بھی رسوخ حاصل کیا تو یار لوگوں نے اس بیچارے کے متعلق وہ گھٹیاء اور غلیظ افسانے باندھے جن کو یاد کرتے ہوئے میرا دل آج بھی باقاعدہ متلی ہونے لگتا ہے کیسا عجیب اتفاق ہے کہ وہ بھی نوجوانی کی موت مرگیا تب جاکر (شاید) اس جنگل کے کلیجے میں کہیں ٹھنڈ پڑی ہوگی؟
عشق کو روگ مار دیتے ہیں
عقل کو سوگ ماردیتے ہیں
آدمی خود بخود نہیں مرتا
دوسرے لوگ مار دیتے ہیں
ادریس بھائی پتہ نہیں مجھے آپ کی موت طبعی کیوں نہیں لگتی؟ اتنی اچانک اور نوجوانی کی موت سے تو یہی لگتا ہے کہ ہر صاحب احساس و باشعور کی طرح آپ بھی باقاعدہ اور پری پلانڈ مگر قسط وار قتل ہوئے ہیں؟
بظاہر انسانی روپ بہروپ میں مگر اندر سے وحشی درندوں بھرے اس جنگل میں کاش کوئی ایک قاتل ہوتا تو میں آپ کی ایف آئی آر کسی ایسے آسمانی تھانے میں ضرور درج کراتا جہاں کسی پی، آر کی ضرورت نہیں پڑتی مگر یہاں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہرصاحب دل اور باشعور کیلئے پورا جنگل ہی قاتل کا روپ دھار لیتا ہے؟
میں کس کس کے ہاتھ پہ آپ کا لہو تلاش کرتا پھروں کہ بدقسمتی سے اس جنگل میں میری چپ و خاموشی بھی اس طرح کے ہرقتل میں مجھے بھی شریک جرم بناکر قاتلوں کی صف میں لا کھڑا کرتی رہی ہے۔۔
ادریس بھائی آپ اپنی تحریروں اور تقریروں میں الفاظ کے جو دئیے روشن کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جہالت و پسماندگی کے گھپ اندھیروں میں ڈوبے کم نظر کہاں تک وہ برداشت کرتے؟ روشنی کا یہی ڈر اور خوف ہی اس جنگل میں قاتل بن کر آپ جیسے جگنوؤں کی تلاش میں پاگلوں کی طرح ادھر ادھر دوڑتا پھرتا ہے اور مطلوبہ شکار ملتے ہی بھنبھوڑنا شروع کردیتا ہے۔۔ میرے قریبی دوستوں میں سے بدقسمتی سے، جس کے تازہ ترین نشانہ آپ بن گئے ہیں رانا ادریس بھائی اور زندگی کا یہ جنگل واقعتاً آپ کے بغیر ایک بار پھر سے اداس ہوگیا ہے بہت اداس۔