Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asmara Yasmeen
  4. Ramzan Aur Khawaja Sara, Samaj Ke Rawaiyon Ka Imtihan

Ramzan Aur Khawaja Sara, Samaj Ke Rawaiyon Ka Imtihan

رمضان اور خواجہ سرا، سماج کے رویّوں کا امتحان

رمضان عبادت، ایثار اور مساوات کا درس دیتا ہے، مگر ہمارا معاشرہ کیا واقعی اس پیغام کو عملی طور پر اپناتا ہے؟ ہر سال جب یہ بابرکت مہینہ آتا ہے، تو مساجد کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں، سحری و افطار کے لمحات خوشیوں سے بھر جاتے ہیں اور سخاوت کے جذبات بیدار ہو جاتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان برکات سے محروم رہتے ہیں، جنہیں نہ صرف سماجی تنہائی کا سامنا ہوتا ہے بلکہ مذہبی اجتماعات میں بھی ان کی موجودگی ناگواری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جسے ہم خواجہ سرا کہتے ہیں۔ ایک ایسا وجود، جو معاشرے کی نظروں میں غیر مرئی ہے، مگر حقیقت میں اسی زمین پر سانس لینے والا ایک مکمل انسان ہے۔

برصغیر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو خواجہ سرا کبھی باوقار مقامات پر فائز تھے۔ سلطنتوں کے رازدار، درباروں کے معتمد اور اہم ریاستی امور کے نگران تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سماجی رویّے بدلتے گئے، یہاں تک کہ آج وہ محض تضحیک، استحصال اور معاشرتی بے حسی کی علامت بن چکے ہیں۔ بازاروں میں، سڑکوں پر اور گلی کوچوں میں ان کا مذاق بنایا جاتا ہے، انہیں کمتر سمجھا جاتا ہے اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔

اسلامی تعلیمات کو دیکھا جائے تو قرآن میں واضح طور پر ارشاد ہوتا ہے: "ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا"۔ (سورہ التین: 4)۔ یہاں نہ صنف کی تخصیص ہے اور نہ برتری کا کوئی ذکر۔ حدیث مبارکہ میں بھی کمزور اور محروم طبقات کی سرپرستی کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے مذہب کو اپنی سہولت کے مطابق اپنانا سیکھا ہے، جہاں عبادت کا مطلب محض ظاہری اعمال تک محدود رہ گیا ہے اور اصل روح، یعنی انسانیت کی قدر، کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

رمضان میں دستر خوان سجتے ہیں، خیرات کے دروازے کھلتے ہیں، مگر خواجہ سرا ان تمام رحمتوں سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ وہ بھی عام مسلمانوں کی طرح روزہ رکھتے ہیں، مگر جب مسجد میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں شک و شبہ کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر افطار میں شریک ہونا چاہیں تو لوگ ان کے ساتھ بیٹھنے سے کتراتے ہیں۔ زکوٰۃ و خیرات میں یتیموں، بیواؤں اور مساکین کو یاد رکھا جاتا ہے، مگر خواجہ سرا کو مستحقین کی فہرست میں شمار کرنا بھی ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ کیا یہ وہی دین ہے جو مساوات کا درس دیتا ہے؟

یہ سوال ہم سب کو خود سے کرنا چاہیے کہ ہم رمضان میں کیا بہتر کر سکتے ہیں تاکہ خواجہ سرا بھی اپنی مذہبی اور معاشرتی زندگی کو سکون سے گزار سکیں؟ سب سے پہلے تو ہمیں اپنے ذہنوں سے یہ غلط تصور نکالنا ہوگا کہ خواجہ سرا دین سے خارج ہیں۔ اگر اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں انہیں کمتر سمجھنے والے؟ ہمیں چاہیے کہ مساجد میں ان کے لیے گنجائش پیدا کریں، انہیں افطار کی محفلوں میں شامل کریں اور سب سے بڑھ کر، انہیں وہ عزت دیں جس کے وہ حقدار ہیں۔

زکوٰۃ و خیرات کا ایک بڑا مقصد سماج کے پسماندہ طبقے کو اوپر اٹھانا ہے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہمارے روزے اور ہماری عبادات قبول ہوں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زکوٰۃ کا ایک حصہ ان افراد کے لیے بھی مخصوص کریں جو سماجی ناانصافی کا شکار ہیں۔

رمضان صرف عبادات کا مہینہ نہیں، بلکہ رویّوں کی اصلاح کا وقت بھی ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جب ہمیں اپنے تعصبات کو ختم کرنے اور ایک حقیقی مسلمان بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم خواجہ سرا کو ان کا حق نہ دیں، تو ہماری نمازیں، روزے اور خیرات سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اللہ کا قرب انہی کو نصیب ہوتا ہے جو اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں۔ کیا ہم واقعی اللہ کے قرب کے طلبگار ہیں؟ اگر ہاں، تو یہ محبت، مساوات اور احترام وہی بنیادی اصول ہیں جنہیں اپنانا ہوگا۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood