Safar e Ishq (8)
سفر ِعشق(8)
تہجد سے پہلے اٹھ کر صرف چائے پی کر ہم دونوں نے دوبارہ کمر کس لی کہ آج تو ضرور روضہ رسول ﷺ تک جائیں گے اور آقا کے حضور درود وسلام کا تحفہ پیش کریں گے۔ انشاء اللہ! اور جس جس نے سلام عرض کیا آقا کی نظر کردیں گے۔ خوشبو میں بس کر دل میں درود کا ورد کرتے چل پڑے، گیٹ پر شائستہ باجی اور حنا منتظر تھیں پتہ چلا باقی لوگ بھی فجر کی نماز تک آجائیں گے۔ ہم تینوں باب النساء کی طرف ہمارے میاں جی گروپ کے مرد حضرات کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔
(ایک بات کی مذید وضاحت کردوں ریاض الجنۃ میں خواتین کے لیئے مخصوص اوقات مقرر ہیں جبکہ مرد حضرات پر ایسی پابندی نہیں۔ خواتین فجر کے بعد اور جہاں تک مجھے یاد ہے بعد عشاء شاید جاسکتی ہیں )۔
خیر ہم نے تہجد پڑھی اور مسجد میں ہی بیٹھ کر قرآن اٹھایا پڑھنے کو ارے یہ کیا؟ یہ کیسا قرآن ہے بنا سپاروں کی نشاندہی، بنا اعراب؟ سٹ پٹا کر کسی سے پوچھنے ہی والی تھی کہ شائستہ باجی بولی ارے نیلے رنگ کا قرآن اٹھاؤ، یہ والا عربی جاننے والوں کے لیئے ہے ہمارے لیئے بلیو جلد میں قرآن ہوتا ہے اوہ اچھا۔ خیر تلاوت کرتے کرتے فجر کا وقت ہوگیا نماز کی نیت باندھتے ہی چاروں طرف خاموشی چھا گئی مگر پھر جو بچوں کے رونے کی آوازیں گونجی چاروں طرف یا اللہ یہ کیا؟
جی مسجد نبویؐ کھلی ہے ہر عمر کے مسلمان کے لیئے اور بچوں کو تو کوئی نہیں روک سکتا وہ ساری مسجد میں بھاگتے پھرتے ہیں۔ میرے نبی پاکؐ کو خاص انسیت تھی ننھے معصوم بچوں سے، دنیا نے دیکھا آپ سجدے میں ہیں اور پیارے نواسے کمر پر سوار ہیں۔ یہاں تو بلی کے بچوں کو باہر نکالنے پر صحابہ کو سرزش کی تھی تو بچوں پر کون لگائے گا پابندی؟ خواتین کے ساتھ بچے نماز کے وقت صفوں کے درمیان بھی کھیلتے ہیں مگر مجال نہیں کوئی ٹوکے آقا کی ناراضگی کون مول لے گا؟
خواتین والے پورشن میں کوئی لڑکا، مرد نہیں آسکتا۔ حد یہ ہے کہ صفائی کرنے والی بھی ساری خواتین ہیں، گیٹ پر دربان بھی خواتین، حیرت تو جب ہوئی جب ایک نقاب پوش خاتون کی آواز گونجی پاکستان باجی، انڈیا باجی ایک طرف آجائیں جنہیں اندر روضے پر جانا ہے۔ ہائیں ! یہ کون ہیں؟ شائستہ باجی نے بتایا یہ معلمہ ہیں انڈین، پاکستانی خواتین کی آسانی کے لیئے اردو میں سارا درس دیتی ہیں مگر خواتین کی موجودگی کے باوجود انہیں نقاب ہٹانے کی اجازت نہیں۔
شکلاََ آپ انہیں کبھی نہیں جان پائیں گی کہ کون ہیں؟ انہوں نے تقریر کے انداز میں ہمیں روضے اور ریاض الجنۃ میں داخل ہونے کے آداب بتانے شروع کیئے۔ بار بار اس بات پر زور دیا کہ ایک دوسرے کو دھکہ نہیں ماریئے گا سب کو نوافل کا موقع دیجئے گا، خود ہی نا جم جائیے گا۔ وہاں اس وقت سن کر حیرت ہورہی تھی بعد میں تجربہ ہوا تو پتہ چلا کیا مقصد تھا اس بات کو بار بار دہرانے کا؟ ابھی ہم انتظار میں جمع بیٹھے ہی تھے کہ اچانک لائٹیں بجھنے لگیں مسجد کی اچانک۔
جو سر اٹھایا تو سر کے اوپر سے چھت سرک رہی تھی اوہ یہ کیا؟ پتہ چلا اشراق کی نشاندہی کے لیئے چھت سرک جاتی ہے اور اوپر آسمان نظر آنے لگتا ہے۔ اُف کیا حیرت انگیز منظر تھا ہم منہ پھاڑے سرکتی چھت، جو دراصل گنبد تھا دیکھ رہے تھے یا اللہ کیا زبردست ٹیکنالوجی ہے!بھئی کمال ہے کمال (میں وڈیو شئیر کرں گی اس منظر کی انشاء اللہ)۔ ہم نے اشراق کی نیت باندھ لی، نوافل سے فارغ ہوکر پھر منتظر بیٹھ گئے اچانک شور سا اٹھا سامنے سے ایک طرف سے لکڑی کی بنی جالیاں ہٹائی گئیں اور دروازہ کُھلا۔
ساری خواتین بے تابانہ وہاں بھاگی، ہم ہونق کھڑے تھے کہ شائستہ باجی نے میرا اور حنا کا ہاتھ پکڑ کے دوڑ لگا دی یا وحشت یہ کیا ہورہا ہے؟ یہ کیا ہنگامہ ہے؟ سب ایک دوسرے کو دھکے مار رہے دوڑ رہے۔ اللہ اللہ کس ہستی کے روبرو جارہے اور کس بد تہذیبی کا مظاہرہ کررہے ہیں، کتنے شرم کی بات ہے ہم مسلمان ہیں؟ اتنے اجڈ، اتنے بے قابو۔ مسلسل اعلان ہورہا آرام سے جائیں بھاگیں نہیں، دھکہ نا دیں مگر جی کون سنتا ہے؟
سب کو جنت میں بکنگ کروانی ہے۔ ریاض الجنۃ میں نوافل پڑھ کر کیوں مجمع کو چیر کر، کہنی ٹانگ مار کر آگے نا بڑھیں؟ میں اور حنا دونوں حواس باختہ تھے کہ شائستہ باجی چیخی جلدی سے نفل پڑھو میں کھڑی ہوں تمھارے پیچھے۔ گھبرا کے نیچے دیکھا تو ہرے رنگ کا کارپٹ قدموں تلے بچھا تھا جو نشانی کے طور پر بچھایا گیا ہے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے اور منبر رسول ؐکے درمیان، کہ یہ وہ جگہ ہے جسے نبی پاک ؐنے جنت کا ٹکڑا قرار دیا تھا۔
سامنے سنہری جالیاں ان کے اردگرد ہرے رنگ کی روکاوٹیں، ہم کونسا کسی ملک کے صدر یا وزیر اعظم جناب کہ صرف روضے کی جالیوں کو چھو ہی سکیں؟ ہمیں تو دور سے نظروں کی پیاس بجھانی تھی۔ دور سے سلام عرض کیا، فاتحہ پڑھی درود کا نذرآنہ پیش کرکے تمام لوگوں کا سلام آقا کی نذر کر دیا۔ آنکھوں سے جو جھڑی بہی آنسوؤں کی تھم ہی نا رہی تھی۔ اللہ اللہ ہم جیسے گناہ گاروں کو یہ سعادت نصیب ہوگئی ایسی ہستی کے روبرو اور نیت باندھ رہے ہیں ریاض الجنۃ میں نوافل کی۔ بس اب دم نکل بھی جائے تو کوئی غم نہیں سب مل گیا سب پالیا، ہاتھ اوپر اٹھے اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھ لی۔
میں مرجاؤں یا مصطفیٰ کہتے کہتے
کھلے آنکھ صلی اللہ کہتے ہیں
آقائے دو جہاں محمد مصطفی ﷺ پر لاکھوں درود کروڑوں سلام۔

