Safar e Ishq (7)
سفر ِعشق(7)
ہم دونوں میاں بیوی ان صاحب کے پیچھے چل رہے تھے جو ہمیں ہوٹل لابی میں ملے تھے۔ ہمیں گروپ والوں نے گیٹ نمبر شاید 12 پر ملنے کا کہا تھا۔ ہم تیز قدموں سے ان صاحب کے ساتھ چل رہے تھے۔ ہوٹل کے سامنے کی روڈ کراس کرکے ایک بڑا سا میدان تھا جس میں بے شمار گاڑیاں پارک تھیں۔ جیسے ہی وہ میدان پار ہوا سامنے سڑک کے پار ایک لمبی سڑک کے اختتام پر مسجد نبوی ؐکے مینار جگمگا رہے تھے۔ دل اچھل اچھل کر باہر آرہا تھا درود ابراہیمی کا ورد مسلسل جاری تھا۔
ایک خوبصورت چھوٹا سا کلاک ٹاور ایک چورنگی پر یہاں بھی مین گیٹ کے پاس تھا جہاں کبوتر اڑان بھر رہے تھے، دانہ چگ رہے تھے۔ مسجد نبویؐ کے اطراف کئی ماڈرن طرز کے ہوٹلز اور بڑے بڑے شاپنگ پلازہ بنے ہیں مگر مسجد نبویؐ کے سامنے سب ہیچ لگتے ہیں، کیا حسین مسجد ہے۔ سبحان اللہ!ہم 22 نمبر گیٹ سے اندر داخل ہوئے، میرے میاں جی فون پر گروپ سے رابطہ کررہے تھے۔ میں چاروں طرف سر گھما کر گنبد خضرا ڈھونڈ رہی تھی۔
یا اللہ کہاں ہے وہ سبز گنبد؟ نظریں بے قرار، دل بے قابو اتنے میں میاں جی نے اطلاع دی یہاں سے ہم دونوں کو الگ ہونا ہے کیونکہ مسجد نبوی ؐمیں خواتین اور مرد حضرات کے لیئے الگ انتظام ہے۔ ہم دونوں اب فون سے رابطے میں رہیں گے، دل دھک سے رہ گیا اللہ اب کیا ہوگا؟ وہ بولے اب تم گروپ کی خواتین کے ساتھ ساتھ رہنا۔ گیٹ کے پاس دائیں بائیں شاپس ہیں ہم نے طے کیا وقت مقررہ پر جو پہلے آئے فلاں شاپ پر انتظار کرے۔
یہ قرآن پاک کی شاپ تھی جہاں ہدیہ دے کر آپ کلام مجید لے سکتے ہیں (ایک بات واضع کردوں باہر کھڑے قرآن بیچتے لوگوں سے کبھی قرآن نا لیں وہ ہدیہ تو کم لیتے ہیں مگر اس پر سعودی گورنمنٹ کی مہر نہیں ہوتی۔ اگر آپ نے مسجد میں بطور تحفہ قرآن برائے ایصال ثواب رکھنا ہے تو بنا مہر والے ہرگز نہیں رکھیں۔ وہاں سے وہ فوراََہٹا دیئے جاتے ہیں اس لیئے تصدیق شدہ قرآن ہی لیں جو تھوڑے مہنگے ہیں یہ بھی شاید ایک دھندہ ہے یا شاید حفاظت مقصود ہے کہ تحریف شدہ اللہ نا کرے کوئی نسخہ نا آجائے اندر)۔
بہرحال ہم گروپ والوں سے ملے، میں نے چھوٹتے ہی پوچھا گنبد خضرا کہاں ہے؟ سب ہنس پڑے وہاں سب دو تین بار آچکے تھے ماشاءاللہ!عمرے، حج پر صرف میں اور ایک اور میاں بیوی حنا اور کامران تھے اور ایک پیارا سا کپل اپنے ساس سسر کے ساتھ وہ پہلی بار آئے تھے۔ (ان کے ساتھ بھی ایک معجزہ ہوا جس کے بارے میں بعد میں بتاوں گی، ویسے جنہیں میں نوبیاہتا جوڑا سمجھی تھی ان کی شادی کو دس برس گزر چکے تھے)۔
بہرحال سب نے کہا نماز کا وقت ہے پہلے نماز یہیں صحن میں پڑھ لیتے ہیں پھر آگے صبح فجر کے بعد دیکھیں گے۔ میرا تو دل ہی ٹوٹ گیا اب یہاں میاں جی بھی مجبور کہ میرا ہاتھ تھام کر اندر نہیں لے جاسکتے تھے کیونکہ خواتین کا پورشن بالکل الگ ہے باب النساء کے نام سے۔ خیر نماز کے بعد ہماری ٹیچر شائستہ باجی نے مجھے اشارے سے ایک جانب بلایا، اپنا نمبر دے کر بولی کہ اب تم میری ذمہ داری ہو تم صبح سویرے مجھے باب النساء پر ملنا میں حنا کو لے کر آوں گی، میں لے جاؤں گی تم دونوں کو ریاض الجنۃ اور روضہ رسول ﷺ پر۔
میرے پاس تو الفاظ نہیں تھے کہ کیسے شائستہ باجی کا شکریہ ادا کروں (یہ تھی وہ وجہ جس کا میں نے ذکر کیا تھا کہ شائستہ باجی کی موجودگی اللہ کی طرف سے ہمارے لیئے ایک اور مدد تھی) بہرحال اس دن صرف گنبد خضرا کی صرف زیارت کی جس کی پہلی کلک دوسال تک میری پروفائل پک میں لگی رہی۔ اب ہم ملول اور دکھے دل سے ہوٹل کی طرف مڑ گئے، ہم نے محبوب خدا کے روبرو جانا بہت آسان سمجھا تھا مگر جناب ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔
ہوٹل کے دروازے پر پہنچ کر چاروں طرف نگاہ دوڑائی تو حیران رہ گئی۔ پہلے اتنی مگن تھی کہ دیکھا نہیں کہ ہم ایک پررونق بازار کے ساتھ واقع ہوٹل میں ہیں۔ اس جگہ کا نام بنگالی بازار یا بنگالی پاڑا ہے سب پاکستانی، انڈین، بنگالی ہوتے ہیں شاپس پر۔ کوئی مسئلہ نہیں زبان کا سب اردو بولنے والے تھے، لگ رہا تھا منی پاکستان ہے۔ اس کا فائدہ ہمیں بہت ہوا آگے کی اقساط میں بتاوں گی۔ میں لفٹ میں اوپر چل دی میاں جی کھانا لینے نیچے رک گئے مگر دل بہت اداس تھا۔
جاتے وقت جتنی خوش تھی اس وقت اتنی ہی ملول تھی۔ ایسی حالت تھی جیسے کوئی عاشق بن ٹھن کر محبوب کے دروازے پر جائے اور درشن نا ہوں تو دکھ، تکلیف کے جن مراحل سے وہ گزرتا ہے انہی سے میں گزر رہی تھی۔ دل بہت اداس تھا کہ فون بج اٹھا ارے پاکستان سے فون بے تابی سے اٹھایا تو بڑے بیٹے کی کال تھی۔ دونوں بچوں اور امی سے بات ہوئی اتنے میں میاں صاحب بھی آگئے، وہ بھی ملول تھے بچوں سے بات کرکے تھوڑی سی تسلی ہوئی۔ بچوں سے کہا پی ٹی سی ایل سے روز کال کرلیا کریں رات کو ہمیں مہنگا پڑے گا۔
یہاں سے سگنل ہر جگہ ویک ہی ملے نیٹ کے، میاں نے تسلی دی کہ کھانا کھا لو ابھی سات دن ہیں فکر نا کرو کل جائیں گے حاضری کو۔ انشاء اللہ!پلاسٹک کا ڈسپوزیبل دسترخوان بچھا کر جسے وہاں سفراء کہتے ہیں دو مسافر چپ چاپ کھانا کھانے بیٹھ گئے، جس کے لیئے ہزاروں میل سے خاک چھانتے آئے تھے اس کے اتنے پاس آکر بھی دور تھے۔ الارم لگایا تہجد میں دوبارہ قسمت آزمائی کے لیئے جانا تھا شاید کل بلاوہ آجائے یا پرسوں یا؟ دل بے چین، تھکن غالب لیٹ تو گئی مگر نیند کوسوں دور جانے کس پہر درود پڑھتے پڑھتے آنکھ لگ گئی؟

