Safar e Ishq (6)
سفر ِعشق(6)
مجھے دعویٰ پرہیز گاری نہیں اور سچ کہوں تو کبھی ایسا شدید مذہبی رجہان بھی نہیں رہا۔ مگر پتہ نہیں کیا بات تھی کہ بن دیکھے کسی شہر سے عشق ہوا تو وہ مدینہ تھا ایک عجیب سی کشش تھی اس شہر میں میرے لیئے اور وجہ ظاہر ہے ایک ہی تھی، ہمارے آقا محسن انسانیت محمد رسول اللہ آپ پر ڈھیروں درود لاکھوں سلام۔
نوٹ۔ براہ مہربانی ان اقساط کو ایک عام آدمی، ایک گناہ گار کے لکھے ہوئے کی طرح پڑھیئے گا۔ میں نا محقق ہوں نا مذہبی اسکالر، میں بس ان لاکھوں زائرین میں سے ایک ہوں جو اپنے گناہوں کی پوٹلی لیئے سرکار کی سفارش لینے آتے ہیں کہ ان کی نظر کرم ہوجائے اور شاید بروز حشر شفاعت ہوجائے، کمی کوتاہی پر معافی کی درخواست ہے تاریخی حقائق میں بھول چوک ہوجائے تو تصیح فرما دیجئے گا۔
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
صبح نو دس بجے شاید ہم روانہ ہوئے مدینہ کی جانب۔ مدینہ جس کا پرانا نام تھا یثرب، جس کے معنی عربی میں تکلیف اور بیماری کے مقام کے ہیں اور یہ اس لیئے کہا جاتا تھا کہ پورے عرب میں سب سے زیادہ برسات اسی شہر میں ہوتی تھیں اور علاقے میں زہریلے مادے پیدا ہوگئے تھے جو بھی یہاں آتا بیمار ہوجاتا تھا۔ پھر اس شہر کا نصیب چمکا میرے آقا حضور ﷺ یہاں تشریف لائے میں نے مختلف کتابوں میں پڑھا ہے کہ سن 623ء اگست یا اکتوبر کا پہلا ہفتہ تھا۔
آپ ﷺ قبا میں چودہ روز قیام کے بعد یثرب یعنی مدینہ میں داخل ہوئے تو قبیلہ بنو نجار کی بچیوں نے دف بجا کر خیر مقدم کیا۔ جب ہم مدینہ کی حدود میں داخل ہوئے تو لبنٰی کے ہزبینڈ نے ایک عمارت کی طرف اشارہ کرکے کہا سب دیکھیں یہ وہ جگہ ہے جہاں بنو نجار کی بچیوں نے نبی پاکؐ کا دف بجا کر استقبال کیا تھا۔ ہم سب میں ایک کھلبلی سی مچ گئی، بس کے شیشوں سے سب نے جھانک کر تصاویر لی اس جگہ کی اب یہاں بچیوں کا ایک مدرسہ قائم ہے۔
ذہن پھر صدیوں پیچھے چلا گیا، کیا سماء ہوگا میرے آقاﷺاونٹنی پر سوار یثرب میں داخل ہوئے ہوں گے اور اس وادی کا نصیب بدل گیا اور یہ یثرب سے مدینۃ النبی بن گئی۔ سبحان اللہ اور یہ شہر دنیا میں ایمان، سکون اور قبولیت دعا کے لیئے عاشقوں کا مرکز بن گیا۔ شہر میں داخل ہوتے ہی دل وجان میں ٹھنڈک اتر جاتی ہے۔ مکہ جہاں اللہ کا جلال برستا ہے انسان اپنے گناہوں کے بوجھ سے سوکھے پتے کی طرح لرزتا رہتا ہے مگر مدینہ میں جاتے ہی یقین ہوتا ہے میرے پیارے آقا ہم گناہ گاروں کی حشر کے روز اللہ سے سفارش ضرور کریں گے۔
تسلی ملتی ہے کہ ہم اس نبیؐ کی امت ہیں جو ہمارے لیئے جنت کے دروازے پر کھڑے ہوں گے انشاء اللہ!مدینہ کے باسی بھی اپنے شہر کی طرح ٹھنڈے مزاج کے اور متواضع طبعیت کے ہیں۔ ان کے اجداد نے نبی پاکؐ اور ان کے ساتھیوں کی خاطر میں اپنا مال، دولت، دل سب نچھاور کردیا تھا اور ان کی نسل آج ہم زائرین کی خدمت کررہی ہے۔
غزوہ حنین کے موقع پر نبی پاک ؐنے نومسلم مکیوں کو زیادہ مال غنیمت سے نوازا تو چند انصار کو یہ بات پسند نہیں آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ " کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ وہ لوگ بکریاں، اونٹ، مال لے جائیں اور تم محمد ﷺ کو اپنے گھر لے آو "؟
انصار بے اختیار ہوکر چیخے ہمیں صرف رسول خدا درکار ہیں۔
سو تاقیامت مدینہ میرے نبیؐ کا شہر رہے گا۔
مکہ سے مدینہ کا سفر بذریعہ آرام دہ بس بھی پانچ، چھ گھنٹوں کا ہے۔ ہم ان آرام دہ نشستوں اور ائیر کنڈیشن بسوں کے سفر میں بھی تھک گئے تو سوچ رہی تھی آج سے سینکڑوں سال پہلے کیسے گرم تپتے سورج کے نیچے یہ سفر طے کیا ہوگا میرے آقا اور ان کے قافلے والوں نے؟ بس یہ سوچ کر آدھی تھکان کم ہوگئی۔
اس سفر میں کبھی تھکتے نہیں دل اور پاؤں
جس سفر میں کہیں احساسِ مدینہ آ جائے
یہاں بھی ہمارا اور دیگر گروپ کے لوگوں کا قیام الگ الگ ہوٹلز میں تھا۔ گروپ والے بالکل مسجد نبوی ﷺ کے سامنے والے ہوٹل میں تھے۔ ہم تھوڑے سے فاصلے پر سامان کمرے میں ڈھیر کرکے میرے میاں جی ابھی آیا کہہ کر غائب، میں نہا دھو کر انتظار میں کہ جلدی سے اڑ کر پہنچ جائیں درِ رسول پر اور شفقت صاحب پتہ نہیں کہاں تھے؟ خیر پندرہ بیس منٹ بعد آئے پوچھا کہاں گئے تھے؟
ایک منی سی شیشی گلاب کے عطر کی دے کر بولے ایسے ہی جاؤگی؟ تیار ہو، خوشبو لگاؤ بن ٹھن کر چلیں گے آقا کے دربار میں۔ اللہ اللہ دو گناہ گار بندے جو خانہ خدا میں کانپتے ہوئے گئے تھے محبوب خدا کے پاس بن ٹھن کر جانے کے لیئے نکل پڑے۔ نیچے لابی میں ایک صاحب سے پوچھا بولے نماز کے لیئے جا رہا ہوں آجاو میرے پیچھے اور ہم خوشی سے دھڑکتے، اچھلتے دل کو سنبھالتے چل پڑے۔

