Safar e Ishq (5)
سفر ِِعشق(5)
آج کی قسط میں زیارات مقدسہ کے علاوہ دو انوکھے واقعات کا ذکر کروں گی جو کم از کم میرے لیئے بہت عجیب تھے یا شاید وہم تھے، جو بھی تھے آپ کے لیئے من وعن حاضر ہیں۔
ہم دونوں یعنی میں اور میرے شوہر نامدار عصر پڑھ کر صفا مروہ کے قریب فرش پر بیٹھ گئے کہ مغرب یہیں پڑھ کر زیارات مقدسہ کے لیئے نکل جائیں گے کیونکہ عصر سے مغرب تک نوافل وغیرہ نہیں پڑھ سکتے، تو ہم تسبیح پڑھ رہے تھے اور سامنے سعی کرتے لوگوں کو بھی دیکھ رہے تھے۔ ہمارے سامنے سے ایک انڈونیشین یا ملائیشین گروپ گزر رہا تھا۔ آگے ان کا لیڈر باآواز بلند آیات پڑھتا تھا پیچھے سارا گروپ اسے دہراتا تھا جیسے بچپن میں ہمیں اسکول میں پہاڑے یاد کروائے جاتے تھے۔
بڑا دلچسپ منظر تھا میں بھی ساتھ ساتھ دل میں دہرانے لگی ان کے ساتھ۔ اچانک شدید بھوک محسوس ہونے لگی، اٹھ کر قریب کے کولر سے زم زم پیا جگہ پر آکر واپس بیٹھ گئی۔ اتنے میں ایک صفائی کرنے والا لمبا سا برش لیئے صفائی کرنے ہمارے قریب آیا، شکل سے انڈین یا پاکستانی سا لگ رہا تھا۔ ہم کھسک کر آگے ہوگئے اس شخص نے میرے ہزبینڈ کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ چونک کر مڑے تو اس نے ان کے ہاتھ پر دو یا تین بسکٹس رکھ دیئے۔
میں ایک بات آپ سب سے شئیر کروں کہ حدود حرم میں کسی کی دی ہوئی چیز کو منع نا کریں یہ ہدیہ ہوتا ہے قبول کرلینا چاہیئے۔ میرے میاں صاحب نے وہ بسکٹس لے کر میری طرف دیکھا (ہم اور آپ میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو کسی جمعدار کے ہاتھ سے لے کر کچھ کھا سکتے ہیں عام حالات میں ؟ میں شرمندگی سے اعتراف کرتی ہوں کہ میں ؟) بہرحال اس وقت بنا سوچے سمجھے میں نے ایک بسکٹ لے کر مزے سے کھالیا۔
دماغ میں ایک لمحے کے لیئے کوئی کراہیت نہیں محسوس ہوئی یہ تو حرم کا صفائی کرنے والا ہے اس کا تو نصیب بہت بلند ہے۔ ایسی سوچیں شاید ہم سب کے دل میں آئیں جبکہ بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ایک صفائی کرنے والا عظیم ہے کیونکہ وہ اس گند کو صاف کرتا ہے جو ہم نے پھیلایا ہوتا ہے۔ یہ بات مجھے اس ایک لمحے میں سمجھ آگئی، اللہ نے اندر کا غرور ایک جھٹکے میں توڑ دیا۔ بسکٹ نہایت لذیذ تھا شکریہ کہنے کو مڑی تو وہ بندہ غائب یا اللہ ابھی تو یہیں تھا؟
مگر دور دور تک مجھے نظر نہیں آرہا تھا وہ، جب اتنا نہیں سوچا مگر اب سوچتی ہوں تو شدید حیران ہوتی ہوں کیونکہ صفا مروہ لمبی سی راہداری نما ہے، ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی تک سب صاف نظر آتا ہے لمحوں میں کوئی کیسے آنکھ سے اوجھل ہو سکتا ہے؟ بہرحال اس ایک بسکٹ سے زندگی کا بہت بڑا سبق ملا اور حیرت انگیز طور پر بھوک بالکل ختم۔ مغرب کی نماز کے وقت سعی، طواف سب رک گیا جو جہاں تھا صفیں بنانے لگا۔
شفقت (میرے ہزبینڈ) کچھ فاصلے پر مردوں کی طرف چلے گئے میں خواتین کی طرف کھڑی ہوگئی۔ اچانک سامنے ایک آدمی، ایک خاتون نظر آئے ان کے ساتھ دو جڑواں بچے تھے عمر یہی کوئی دو ڈھائی برس ہوگی، سب احرام میں ملبوس مجھے ایک نظر میں ٹرکش لگے انتہائی حسین جوڑا اور بچے میں بتا نہیں سکتی کیا حسن تھا؟ میں نے اپنی زندگی میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین بچے دیکھے ہیں عام زندگی سے ہٹ کر بھی فلموں، رسالوں میں مگر ایسا پاکیزہ اور معصوم حسن شاید ہی کبھی نظر سے گزرا ہو۔
وہ بچے کیا تھے فرشتے تھے سفید احرام میں تو واقعی، صرف پر لگنے کی دیر تھی۔ میں سکتے کی سی کیفیت میں انہیں دیکھ رہی تھی اچانک امام کی آواز پر چونک کر نیت باندھی۔ بچے میرے بالکل پاس ایک ستون کے پاس ان کے والد نے کھڑے کر دیئے والدہ مجھ سے آگے کی صف میں بچوں کے پاس کھڑی تھیں۔ نماز پڑھتے وقت وہ بچے وہیں کھڑے رہے میرا ذہن اللہ مجھے معاف فرمائے ان کی طرف ہی لگا ہوا تھا، یقین کریں اس میں میرا قطعاً قصور نہیں تھا۔
وہاں اردگرد کے بہت سے لوگ انہیں اشتیاق سے دیکھ رہے تھے جن میں میرے میاں بھی شامل تھے۔ اب سنیں حیرت انگیز بات نماز ختم ہوتے ہی سلام پھیر کر دیکھا تو بچے غائب، ادھر ادھر نظر دوڑائی پھر دعا مانگنے لگی۔ سعی شروع ہونے لگی تو راستہ چھوڑ کر سائڈ پر ہونا پڑا گردن گھما کر ادھر ادھر دوڑ کر اس جوڑے اور بچوں کو بہت تلاش کیا مگر وہ غائب، نا سعی کرتے نظر آرہے نا اردگرد یا اللہ یہ سب کہاں غائب ہورہےتھے؟
میاں کو بتایا تو بولے سچ میں نے بھی سوچا تھا نماز پڑھ کر بچوں کو پیار ضرور کروں گا مگر وہ تو لمحوں میں غائب ہوگئے۔ شاید آپ سب میرا مذاق اڑائیں مگر میری رائے یہ تھی کہ وہ انسانی فیملی تو قطعاً نہیں تھی۔ ہم دونوں میاں بیوی نے رات کو اس پر بات کرکے یہی نتیجہ نکالا کیونکہ اتنا حسن اور معصومیت کسی انسان میں یکجا؟ ہم دونوں نے ہی پہلی بار دیکھا تھا شاید یہ ہمارا وہم ہو مگر آج بھی چڑیوں کی طرح سہمے سے حسین بچے مجھے ستون کے قریب کھڑے یاد آتے ہیں۔
اتنے چھوٹے بچے پوری نماز کے وقت وہاں سے نہیں ہلے جبکہ بچوں کی جبلت ایسی ہوتی نہیں اور اتنے چھوٹے بچوں کی تو بالکل نہیں باقی وللہ اعلم باالصواب۔ اب چلے ہم نبی پاک کے گھر کی جانب، صفا مروہ کے بالکل پیچھے ایک بہت بڑی لائیبریری نظر آتی ہے جی ہاں یہی ہے ہمارے پیارے نبی کا گھر جو سعودی حکومت نے شاندار لائبریری میں بدل دیا ہے۔ نظر بے قرار قدم لڑکھڑائے سے دماغ میں یہ سوچ کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی پاک چلتے پھرتے ہوں گے؟
افف رونگٹے اس وقت بھی کھڑے ہورہے سوچ کر، آپ تصور کریں ایسی جگہ کھڑے ہوکر کیا محسوسات ہوتے آپکے؟ میں بیان نہیں کرسکتی لفظوں میں۔ اچانک میری دوست لبنی نے سامنے اشارہ کیا ایک بہت بڑا محل تھا پیچھے ابو قبیس کے پہاڑ، پوچھا کیا ہے؟ بولی کنگ کا محل ہے مگر میں دکھانا کچھ اور چاہ رہی ہوں تمھیں وہ دیکھو ایک چھوٹا سا روشن دان دیکھ رہی ہو محل میں ؟ واقعی عجیب سا لگا اتنے بڑے محل میں وہ روشن دان یا کھڑکی پوچھا کیا ہے؟
تو اس کے ہزبینڈ نے بتایا یہاں اس بڑھیا کا گھر تھا جو میرے پیارے نبی پر کچرا پھینکا کرتی تھی اور نبی پاک چپ چاپ گزر جایا کرتے تھے۔ ایک دن کچرا نا پھینکا تو پریشان ہوکر پوچھا لوگوں خاتون کہاں ہیں ؟ پتہ چلا بیمار ہے فورا عیادت کو اس کے گھر تشریف لے گئے۔ یہ درگزر اور حسن سلوک کی ایک ایسی مثال ہے جس کی نظیر نہیں۔ دشمن بوڑھی عورت بھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئی اللہ اللہ اتنا ظرف کس میں ہوگا جتنا میرے نبی میں تھا؟ یہ روشن دان نما کھڑکی علامت کے طور پر برقرار ہے باقی گھر وغیرہ تو کب کا ختم کردیا گیا۔
آگے بیت الخلا بنے نظر آئے پتہ چلا ابو جہل کا گھر تھا جسے بیت الخلا میں تبدیل کردیا گیا ہے لعنت رہتی دنیا تک پڑتی رہے گی۔ وہاں سے آگے بڑھے، سڑک کراس کرکے مسجد جن دیکھی جہاں نبی پاک کے ہاتھ پر جنات کا قافلہ اسلام لایا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک بار فجر کے وقت تلاوت قرآن سن کر جنوں کا ایک قافلہ نبی پاک کے ہاتھوں مشرف با اسلام ہوگیا تھا تو اس مسجد کا نام مسجد جن پڑگیا یہ ایک مینارپر مشتمل مسجد ہے۔ مرد حضرات اندر نوافل پڑھنے چلے گئے ہم باہر بیٹھ گئے۔
سامنے مسجد اشجار، مسجد شجرہ بھی ہے جہاں ایک درخت نبی پاک کے حکم سے چلتا ہوا آپ کی خدمت میں آگیا تھا اور پھر ایک اشارے پر واپس بھی چلا گیا تھا۔ اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ کسی نے نبی پاک سے کہا کہ پہلے کے انبیاء کرام کے پاس معجزے تھے آپ کے پاس کیا ہے؟ جس پر نبی پاک نے ارشاد کیا کہ ابھی حکم کروں تو یہ درخت میرے پاس چل کر آجائے ابھی بات پوری ہی ہوئی تھی کہ درخت چل کر آپ کے پاس آگیا سبحان اللہ! یہ مسجد فل حال بند ہے۔
نوافل کے بعد جنت المعلیٰ قبرستان کی طرف بڑھے جہاں بی بی خدیجہ الکبری فرسٹ بزنس لیڈی آف اسلامک ہسٹری نبی پاک کی عزیز زوجہ محترمہ مدفون ہیں۔ ایک ایسی غم گسار شریک حیات جس نے اپنے شوہر کا ہر حال میں ساتھ نبھا کر دنیا کی تمام عورتوں کے لیئے ایک زندہ مثال قائم کی، جو آج بھی ہمارے لیئے مشعل راہ ہے کہ سکھ میں نہیں دکھ میں بھی اپنے مجازی خدا کا ساتھ ایسے نبھاتے ہیں۔
ہم خواتین کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی مرد حضرات اندر گئے ہم نے باہر سے ہی فاتحہ پڑھ لی پھر واپسی کے لیئے مڑے کہ عشاء کا وقت قریب تھا، مگر راستے میں ہی اذان شروع ہوگئی۔ ہمارے ساتھ لبنی کی ضعیف والدہ اور بچہ بھی تھا، تیز نہیں چل سکتے تھے تو ایک دکان کی اوٹ میں ہوکر ہم خواتین نے اور مرد حضرات نے فٹ پاتھ پر ہی نیت باندھ لی۔ نماز سے فارغ ہوکر ہوٹل کی جانب چل پڑے، کل نکلنا تھا فجر کے بعد اس جانب جس کی وجہ سے اس سفر نامے کا نام سفر عشق رکھا جی" مدینہ " اپنے پیارے نبی کے شہر۔

