Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Zafar
  4. Safar e Ishq (4)

Safar e Ishq (4)

سفر ِِعشق( 4)

ایک مرحلہ بخیر و خوبی طے ہوا، ہوٹل کی جانب جاتے ہوئے بار بار بچوں کا خیال آرہا تھا کہ پریشان ہوں گے۔ ہوٹل پہنچتے ہی موبائل فون میں سم ڈالی جو گروپ میں سب کو دی گئی تھی مگر بے کار وہ کام ہی نہیں کررہی تھی۔ نیٹ کی رفتار بھی بہت سلو یا اللہ کیا کریں ؟ شدید بے چینی تھی نیچے ریسپشن سے پوچھا تو بولے صبح کلاک ٹاور سے فرنچائز سے ملے گی سم۔ خیر کسی نا کسی طرح ان باکس پر پیغام دیا کہ پہنچ گئے عمرہ ادا ہوگیا نمبر ملتے ہی بات کریں گے فکر نا کرنا۔

ہوٹل کے ساتھ کئی انڈین، عربک کھانوں کی شاپس تھیں۔ میاں جی نہا دھو کر کھانا لے آئے، جلدی جلدی کھا کر حرم کی طرف دوبارہ چلے کہ عشاء کا وقت قریب تھا۔ ہماری خوش نصیبی ہوٹل قریب تھا، حرم شریف سے کوئی دس منٹ کی واک ہوگی۔ نماز پڑھ کر نکلے تو باہر شاپس پر نظر پڑی جن پر پہلے دھیان ہی نہیں گیا یا اللہ سونے کے زیورات کی دکانیں چم چم چمک رہیں تھیں نا کوئی گارڈ بندوق لیئے باہر کھڑا تھا نا دروازے بند تھے۔ پرچون کی دکان کی طرح سب کھلا پڑا تھا۔

مزے کی بات بتاؤں جو لوگ جاچکے ہیں انہیں بھی علم ہوگا کہ ساری شاپس پوری رات کھلی رہتی ہیں۔ نماز کے وقت ایک کپڑا ڈال کر نماز ادا کرنے چل دیتے ہیں۔ وہ جو لنگڑے لولے فقیر نظر آئے تھے جن پر ہم رحم کھا رہے تھے وہی سزا وجہ تھی اس لاپرواہی کی۔ ہم اسلامی نظام کی پہلی خوبی کے قائل ہوئے نظروں سے دیکھ کر۔ خیر جلد آکر لیٹ جانا چاہتے تھے کہ تہجد کے لیئے جاگنا بھی تھا اور تھکن بھی انتہائی درجے کی تھی۔ مکہ اور مدینہ دونوں میں تہجد کے لیئے باقاعدہ اذان دی جاتی ہے۔

حرم کے اتنے نزدیک ہونے کے باوجود ہمارے ہوٹل کے پیچھے بھی ایک چھوٹی سی مسجد تھی وہ بھی اردگرد کے دکان داروں سے بھری رہتی تھی۔ روم میں لیٹنے کا قصد کرہی رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی یا اللہ یہاں کون آگیا؟ دروازہ کھولا تو ہماری محترم ٹیچر کھڑی تھیں۔ گروپ کی خواتین کا روم بھی ہماری ہی منزل پر تھا۔ شائستہ باجی عمرہ ادا کرکے آگئیں تھیں ہم سے ملنے روم میں آئیں تھیں۔ وہ پہلے بھی کئی بار عمرہ ادا کرچکی تھیں، اس بار میری سہیلی یعنی اپنی بھانجی کے ہمراہ آئی تھیں۔

اندر آکر حال احوال کے بعد چلی گئیں ہمیں بڑی ڈھارس ہوئی۔ وہ بہت سی کام کی باتیں بتاگئیں تھیں ہمیں جو آگے بہت کام آئیں۔ تہجد سے پہلے الارم کی آواز پر میں نے اٹھ کر میاں سے کہا ابھی حرم خالی ہوگاجلدی سے چلتے ہیں، وہ مسکرا کر بولے محترمہ کھڑکی کا پردا ہٹائیں ذرا، اوہ یہ تو سڑک پر احرام میں ملبوس سینکڑوں لوگ حرم کی جانب رواں دواں ہیں۔ جی جناب سارا دن ساری رات مکہ جاگتا ہے۔ زائرین کے جہاز اترتے رہتے ہیں اور دیوانے دن رات خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے رہتے ہیں۔

بہرحال ہم حرم پہنچے تہجد کے بعد نفلی طواف کا قصد کیا کہ یہ وہ عبادت ہے جو آپ دنیا میں کہیں ادا نہیں کرسکتے سوائے حرم شریف کے، باقی ہر عبادت آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں ادا کرسکتے ہیں۔ طواف کرتے کرتے فجر کا وقت ہوگیا زندگی میں ایسی نماز فجر کبھی نہیں پڑھی، چاروں طرف سے ابابیلوں کی آوازیں اور پروازیں چاروں طرف سے گونجتی مؤذن کی آواز اُف کیا منظر تھا؟ بیان سے باہر اتنی پر لطف نماز کبھی نصیب نا ہوئی تھی بخدا۔

فجر پڑھ کر راستے سے ناشتہ لیتے ہوٹل کی طرف بڑھے سوچا تھا مسجد عائشہ جاکر نوافل پڑھ کر دوبارہ احرام باندھ کر ایک عمرہ اپنے والد صاحب کے نام سے کروں گی، میاں جی اپنی والدہ کے لیئے۔ گروپ کی ساری خواتین ہوٹل میں ہی موجود تھیں تھکان کی وجہ سے نماز وہیں ادا کی انہوں نے، مرد البتہ حرم چلے گئے تھے۔ ان سے دعا سلام کرکے چل پڑے بس اسٹاپ کی طرف راستہ پوچھتے پوچھتے، وہاں ٹکٹ دینے والا بندہ پاکستانی تھا بلکہ وہاں ہر شاپ پر آپ کو بنگلہ دیشی، پاکستانی یا انڈین ہی ملیں گے۔ اکثر بورڈز پر ہدایت عربی انگریزی اور اردو تینوں زبانوں میں درج ہوتی ہے۔

بس بے حد آرام دہ تھی کوئی دس منٹ میں ہم مسجد عائشہ پہنچ گئے۔ وضو کرے، نوافل پڑھے، عمرے کی نیت کی، میاں ہوٹل سے احرام باندھ کر چلے تھے۔ دوبارہ بس میں سوار حرم کی جانب چل پڑے جب وہاں پہنچے تو دروازوں پر رکاوٹیں لگی یا اللہ یہ کیا ہے؟ پتہ چلا حرم فل ہے ظہر کی نماز باہر صحن میں پڑھنی ہوگی اس کے بعد اندر جا سکیں گے، خیر جی بیٹھ گئے وہیں۔ نماز کے بعد اندر داخل ہونے کا مرحلہ، بہت رش تھا مگر گھس ہی گئے عمرہ ادا کیا اور نکلے۔

باہر میاں جی نے کہا آج تو صرف سر پر علامتی استرا پھیرنا ہے ریزر سے ہوٹل میں ہی پھیر لیں گے۔ ہمیں دوسرے روز مدینہ کے لیئے روانہ ہونا تھا اس لیئے گروپ کو آج زیارات پر بھی جانا تھا اس کے لیئے بھی میں بہت پرجوش تھی۔ نبی پاکؐ کا گھر دیکھنا تھا پیٹ میں جیسے مچھلیاں تیر رہیں تھیں کہ اڑ کر پہنچیں مگر اس سے پہلے سم بھی لینی تھی۔ جب کلاک ٹاور پہنچے تو لمبی قطار بائیو میٹرک کے لیئے یا اللہ یہ کیا مصیبت ہے؟ ائیر پورٹ سے سم لینا بہت بہتر رہتا ہے ہم پھنس گئے تھے۔

اب تو خیر رینگ رینگ کر جب آگے بڑھے تو ہمارے انگوٹھا رکھتے ہی سعودی برادر چیخا " ششٹم ڈون " اوہ تیری خیر اب کیا ہوگا؟ یہاں تو سسٹم ہی ڈاؤن ہوگیا منہ لٹکائے ہوٹل واپس آئے تو خوشخبری ملی کہ سگنل اچھے آرہےہیں سب لگے پڑے میسج کرنے میں۔ ہم نے ٹیبلیٹ آن کیا، وائی فائی کنیکٹ کرتے ہی ٹیب پر بڑے بیٹے کا میسج جلدی سے کھولا تو سامنے ایک فوٹو میں ایک عدد ہاف فرائی انڈہ، ہائیں یہ کیا دونوں بھائی پلیٹ پکڑے بیٹھے ہیں؟

نیچے وائس میسج میں پیغام ہررے ہم نے ناشتہ خود بنایا اور انڈہ بھی فرائی کیا۔ ہمیں اپنے ڈیڑھ ہزار کے نان اسٹک پین کی فکر پڑ گئی جو نیا نکور خریدا تھا مگر بچوں کی خوشی دیکھ کر کچھ نا بولے۔ بہت یاد آرہی تھی کاش بات ہوجائے، سہیلی کے روم میں گئے تو اس نے کہا لو میرے فون سے بات کرلو خوشی سے اسے گلے لگا لیا جلدی سے نمبر ملایا تو چھوٹے نے اٹھایا۔ لہجے کی اداسی ایک لمحے میں جان گئی مگر اس نے کچھ ظاہر نا کیا بس نانی کی شکایت کہ صبح صبح جگا دیا خیر تسلی ہوگئی کہ بات ہوگئی۔

اب جانا تھا زیارات پر طے یہ ہوا کہ ہم صفا مروہ کی طرف والے دروازے پر بعد مغرب کے جمع ہوں گےوہاں سے پیدل ان زیارات پر جائیں گے جو قریب ہیں۔ جیسے مسجد جن، نبی پاکؐ کا گھر، مسجد اشجار وغیرہ۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam