Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Zafar
  4. Safar e Ishq (3)

Safar e Ishq (3)

سفر ِِعشق( 3)

"وہی پہلے ہے وہی پیچھے، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی، وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے "۔

دو گناہ گار، دو عاصی دل میں اللہ کا خوف، زبان پر ورد، آنکھوں میں دھندلاہٹ، شاہراہ ابراہیم خلیل پر آگے بڑھ رہے تھے (اس روڈ کا نام پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہ راستہ تھا جہاں سے حضرت ابراہیمؑ حرم تشریف لے جاتے تھے)۔ جیسے ہی تھوڑا آگے بڑھے کلاک ٹاور پوری شان سے ایستادہ اپنی چمک دکھا رہا تھا۔ اس سے پہلے ایک گول چورنگی نما تھی جہاں سینکڑوں کبوتر دانہ چگ رہے تھے، یاد آیا کئی لوگوں نے پیسے دیئے تھے کہ ان کبوتروں کو دانہ ان کی طرف سے ڈال دیا جائے سوچا واپسی پر دیکھیں گے۔

آگے روڈ پر لنگڑے، لولے فقیر ایک کے بعد ایک نظر آرہے تھے جن کے غائب ہوئے اعضاء پر ایک اودی سی مہر لگی تھی، سمجھ کچھ نا آیا اس وقت بعد میں پتہ چلا مختلف جرائم میں سزا کے طور پر ہاتھ پاؤں قطع کردیئے گئے۔ بہرحال ہم تیز تیز قدموں چلتے آگے بڑھے تو حرم شریف کے دروازے نظر آنے لگے۔ ہمیں جانے سے پہلے لوگوں نے ہدایت کی تھی دروازے کا نام یاد رکھنا سب ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں اگر بھٹک گئے تو مسئلہ ہوجائے گا۔

خیر ہم داخل ہوئے باب عبد العزیز سے اندر چپل اتار کر سوچنے لگے، کیا کریں میاں نے کہا بیگ میں رکھ لو، ہم نے کہا ہرگز نہیں جوتے چپل لے کر طواف کروگے کیا؟ ایک ستون نظر آیا ہم معصوم نے سوچا یہاں رکھ دیتے ہیں واپسی پر پہن لیں گے۔ بہرحال چپل اتار کر جیسے ہیں دس بارہ قدم چلے یا اللہ دل کی دھڑکن رک گئی، سوچا تھا یہ دعا مانگیں گے وہ دعا مانگیں گے جب خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑے گی، یہاں تو سٹی ہی گم ہوگئی وہ ہچکیاں بندھی کہ ٹھکانہ ہی نہیں۔ میاں نے کہنی ماری تو بے اختیار لبوں سے نکلا اے اللہ بس معاف کردے ہم گناہ گاروں کو۔

" ربنا اتنا فی دنیا حسنۃ وفی الآخرتۃ حسنۃ وقنا عذاب النار "

دل لگ رہا تھا پسلیاں توڑ کر باہر نکل پڑے گا۔ روز نماز کی نیت باندھتے وقت کہتے ہیں منہ میرا کعبہ شریف کی طرف، اب تو پورا کعبہ شریف پورے جلال کے ساتھ سامنے کھڑا تھا خوف سے جسم لرز رہا تھا وہ کیا کیفیت تھی نہیں بیان کرسکتی؟ اور یہ عالم ہر بار طاری ہوا جتنی بار بعد میں بھی حرم شریف میں گئے۔ میاں جی نے کہا ہاتھ مضبوطی سے پکڑو تب ہوش میں آکر چاروں طرف دیکھا تو اتنا ہجوم کہ انسانی سر ہی سر چاروں طرف ایک سمندر تھا انسانوں کا جو دیوانہ وار گھوم رہا تھا کعبے کے اردگرد۔

ہم بھی قدم بڑھا کر اس ہجوم کا حصہ بن گئے پہلا طواف شروع ہوا ایک سرخ رنگ کی بتی کی طرف سے، یہ علامت کے طور پر لگی ہوئی ہے کہ پتہ چلے طواف یہاں سے شروع کرنا ہے۔ مجھے تو کچھ ہوش نہیں تھا نظر خانہ خدا سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی، میاں صاحب بولے آگے دیکھو پاگل گر جاوگی وہاں کیا دیکھ رہی ہو؟ وہی گھسیٹ رہے تھے مجھے کچھ خبر نا تھی سامنے حجر اسود تھا مگر اس تک پہنچنا ناممکن۔ اشارے سے بوسہ دیا آخری طواف کے وقت میاں سے کہا چلیں چوم کر آتے ہیں بولے باولی ہوگئی ہوکیا؟ کل دیکھیں گے اچانک زور کا دھکہ لگا اور سامنے مقام ابراہیم ارے یہ کہاں سے آگیا؟

بہرحال عقیدت سے اندر جھانکنے کی کوشش کی تو میاں جی نے پھر گھسیٹ لیا، خونخوار لہجے میں بولے چلتی رہو رکو نہیں آخری طواف پورا ہوتے ہی ہم نے آو دیکھا نا تاؤ میاں کو کھینچتے ہوئے اندر گھس گئے، وہ ارے ارے کہتے رہے مگر ہم نا رکے دو تین شدید جھٹکوں کے بعد سیدے جاکر کعبے کی دیوار سے ٹکرائے۔ حواس باختہ ہوکر دیکھا تو ہاتھ سہارے کے لیئے جس پر ٹکے تھے وہ خانہ خدا کی وہ دیوار تھی جہاں رکن یمانی ہے سوچا اللہ نے خود ہاتھ ٹکا دیئے تو کیا ہٹانا؟

کہتے ہیں کہ خوشبو لگی ہوتی ہے، احرام کی حالت میں چھونا نہیں چاہیئے مگر ہمارا کیا قصور دھکہ ہی اتنا شدید تھا اب ہاتھ ٹک گئے تو ٹک گئے۔ دعا کی اے اللہ جس جس نے اپنی حاجات میری پوٹلی میں باندھ کر بھیجی ہیں سب تیرے سامنے الٹتی ہوں، میری کیا اوقات تو ہی پوری کردے اس گناہ گار کا بھرم رکھ لے مولا۔ آگے حجر اسود تک جانا چاہتی تھی میاں پھر ولن بن گئے اور کھینچ کر باہر لے آئے کہ چلو بی بی صفا مروہ کی جانب سعی کے لیئے آو۔

صفا مروہ زمین پر اللہ کی نشانیاں، ایک ایسا رکن ہے سعی جس کے بنا نا حج مکمل نا عمرہ۔ ایک ماں کی تڑپ میرے رب کو اتنی پسند آئی کہ اسے لازمی جز بنا دیا حج عمرے کا۔ سعی کے لیئے اندر داخل ہوئے تو شدید ٹھنڈا ماحول، باہر سورج چمک کر اللہ کا جلال برسا رہا تھا یہاں مامتا جیسی ٹھنڈک زمین دوز ائیر کنڈیشن سے زمین ٹھنڈی برف، پاؤں اکڑ رہے مگر سعی پوری کی اور سوچتی رہی بی بی حاجرہ نے اس لق و دق صحرا میں کیسے تپتے سورج کے نیچے ننھا بچہ لٹایا ہوگا، کیا بے قرار ماں کی مامتا ہوگی؟ ایک ماں ہونے کے ناطے بہت اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔

باہر نکل کر دو رکعت نوافل ادا کیئے یہ لو ہوگیا پہلا عمرہ۔ عصر کی اذان ہونے لگی نماز ادا کی، وہیں آج واقعی منہ میرا طرف کعبے شریف کے تھا، میاں بولے یہیں رکتے ہیں مغرب پڑھ کر نکلیں گے۔ سامنے زم زم کے ٹھنڈے پانی کے کولر سے خوب پانی پیا اور دل سے سعودی حکومت کے لیئے شاید پہلی بار دعا نکلی۔ کیا انتظام ہے صفائی خودکار طریقے سے جھٹ پٹ لاکھوں لوگوں کے بیچ سے کرتی ہوئی گاربیج گاڑیاں، ٹھنڈے پانی نارمل پانی کے کولر جگہ جگہ رکھے۔

باہر صحن حرم میں بڑے بڑے فین سے نکلتی پانی کی پھوار اپنی جانب سے زائرین کو بہت سہولیات میسر کی ہیں جو شاید ان کی اب تک نجات کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں، باقی کچھ نہیں کہوں گی پوسٹ سیاسی نہیں ہے۔ نماز پڑھ کر ستون ڈھونڈ رہے دو پاگل لوگ، جہاں چپل رکھی تھی وہاں تو ستون ہی ستون اور ظاہر ہے صفائی کا عملہ کب کی لاد لے گیا ہوگا۔ خیر ننگے پاؤں باہر نکلے ہم نے تو صفا مروہ کے پاس بال کاٹ لیئے تھے میاں کو سر منڈوانا تھا۔

میاں بولے کلاک ٹاور میں چلو چپل بھی لے لیں گے سر بھی وہیں منڈوا لوں گا۔ اندر گھستے ہی عقاب کی طرح لوگ جھپٹے، بال کٹوانے ہیں ؟ صاحب ادھر آجائیں دوسرا بولا ادھر چلیں ہم ہونق بنے کھڑے۔ خیر ایک صاحب سے پندرہ ریال میں بات طے ہوئی جسے ہم دل ہی دل میں پاکستانی کرنسی میں بدل کر سوچتے رہے۔ یا اللہ گنجا ہونا اتنا مہنگا بھی پڑسکتا ہے؟ چپل کے لیئے شاپ میں گھسے تو دو پٹی کی ہوائی چپل کی قیمت سن کر ہوا میں اڑنے لگے مگر لینی تو تھی سو خرید کر باہر نکلے۔

تھوڑا آگے بڑھے تو ہمارا پورا گروپ عمرے کے لیئے حرم کی طرف جاتا نظر آیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو دوماہ سے جانتے تھے، تیار تھے عمرے کے لیئے اور ہم وہ دو جنہیں سترہ دن پہلے ہی پتہ چلا تھا۔ اللہ کی اللہ ہی جانے سب ہمارے میاں جی کے منڈے سر کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے کہ تم لوگ عمرہ ادا بھی کر آئے؟ الحمدللہ سہیلی نظر آئی تو قابو نا پاسکے اور گلے لگ کر رو پڑے۔ گروپ میں ہماری ایک محترم استاد بھی مل گئیں جو مجھے اور میرے میاں دونوں کو پڑھا چکی تھیں ان کو اللہ نے کیوں ملوایا؟ یہ بھی ایک راز تھا جو آگے کھلے گا آئندہ کی قسط میں انشاء اللہ۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam