Safar e Ishq (2)
سفر ِِعشق( 2)
دو دن میں ہمارے ٹکٹس کنفرم ہوگئے اور 17 دن تھے تیاری کے یہ سب اتنا جلدی ہوا کہ کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نا ملا مگر پھر اچانک میرے اندر کی ماں زور کی انگڑائی لیئے بیدار ہوگئی اور بولی بہن تم بچوں کو کس بھروسے چھوڑ جارہی؟ پریشانی میں میاں سے کہا ان دونوں کو تو چائے کے سوا کچھ بنانا نہیں آتا کیا کریں گے امی بے چاری کیسے مینج کریں گی انکے نخرے میاں نے مشورہ دیا کھانے پکاکر فریز کردو بس اماں کے دل کو بات لگ گئی ۔
روز دو دو تین تین کھانے پکا کر پلاسٹک باکس میں بند ھو کر سرد خانے میں جمع ہونے لگے بچوں سے کہا کام والی آکر جھاڑو برتن کردے گی تم روٹی بازار سے لانا نانی کو پریشان نا کرنا وغیرہ وغیرہ مگر دل اندر سے دھک دھک ہی کررہا تھا کہ کیا کریں گے دونوں ساتھ اپنی چھوٹی موٹی چیزیں بھی خریدتے لیتے رہے بڑی نند نے الیکٹرک کیٹل بمعہ ٹی بیگز کے باکسز اور ایوری ڈے کے ساشے کے ڈھیر تھما دیئے۔
معلوم تھا بھاوج چائے کی شوقین ہیں امی نے چپکے سے ہاتھ میں تیس ہزار دیئے حیرانی سے پوچھا یہ کیوں آپا (امی کو آپا جان کہتے ہیں ہم) بولیں سفر ہے ہزار ضروریات ہوتی ہیں رکھ لو منع کرنے کے باوجود گھرک کر تھمادیئے کہ میاں کو ابھی نا بتانا ورنہ لیں گے نہیں یہ امائیں بھی عجیب ہوتی ہیں ہمیں اپنے بچوں کی فکر انہیں اپنی بچی کی ۔
بہرحال وہ دن آگیا جس دن روانگی تھی بچوں کو بھینچ بھینچ کر دو دن پہلے سے چومنا اسٹارٹ ہوگیا تھا اس دن مذید زور آگیا چومنے بھیچنے میں کہ زندگی میں پہلی بار اماں باوا دور ہورہے تھے جبکہ وہ جشن منا رہے تھے اس بات پر بہرحال ایک سفری بیگ اور ایک سوٹ کیس لیئے پہنچ گئے ائیرپورٹ لوگوں نے ڈرایا ہوا تھا جدہ ائیرپورٹ پر گھنٹوں خوار کرتے ہیں۔
پاکستانیوں کا سارا سامان کھول دیتے ہیں وغیرہ کیونکہ ہماری ڈائریکٹ اور ہمارے دوسرے ساتھیوں کی کنیکٹوو فلائٹ تھی براستہ دبئی مگر ہمیں ہماری سہیلی کے میاں نے تسلی دی کہ وہاں ساتھ ہی پہنچ جائیں گے کیونکہ انکی فلائٹ پہلے روآنہ ہوچکی تھی ہم دونوں احرام باندھ کر گھر سے چلے تھے یہاں سے بخیریت نکل کر جہاز پر سوار ہوگئے اتنے خوش تھے کہ شاہین والوں کی بری سروس بھی ہنسی خوشی برداشت کرگئے ورنہ ہم جیسے نک چڑے تو پائلیٹ کے کیبن میں گھس کر شکایت کرنے والوں میں سے ہیں۔۔
اب جہاز کے پہیئے چھوتے ہیں جدہ کا ائیرپورٹ گرم ترین دن ٹمپریچر بے حد ہائی اپریل کا مہینہ مگر سب ایک طرف سب سے پہلے تو ائیرپورٹ کا ٹینشن کہ کیا ہوگا مگر کچھ نا ہوا ایسے آدھے گھنٹے میں فارغ ہوئے کہ یقین ہی نہیں آرہا تھا باہر آکر گروپ کا انتظار کرتے رہے مگر کوئی میسر نہیں انجانی جگہ دو بیوقوف کھڑے ہونق بنے ایک دوسرے کو دیکھ رہے وہ تو میاں کی عقل مندی کہ ٹریولر کا نام پوچھ لیا تھا ہوٹل کے لیئے کارڈ پہلے ہی پاس تھا تو پوچھتے پاچھتے بس تک آگئے اور اس نے گروپ کا نام وغیرہ پوچھ کر ہمیں مکہ کے لیئے بس میں سوار کر لیا ایک مرحلہ تو سر ہوا۔
اب چلی سواری مکہ کی جانب بے چینی اپنے عروج پر مجھے لمبے سفر میں متلی الٹی سر چکرانے جیسے مسائل پیش آتے ہیں طبعیت بگڑنے لگی مگر درود اور آیات کا ورد کرتی رہی کہ عمرہ فوری ادا کرنا تھا طبعیت بحال رکھنی تھی اسلیئے خالی پیٹ تھی بس گھر سے چائے پی کے نکلی تھی صبح کا سفر تھا تو ناشتہ جہاز میں دیا گیا مگر ڈر سے نہیں کھایا کہ طبعیت نا بگڑے اللہ اللہ کرکے ہوٹل تک پہنچے ہمارا ہوٹل مین شاہراہ ابراہیم خلیل روڈ پر تھا (خواب کی تعبیر ہورہی تھی ہم بے خبر تھے یعنی روڈ کا نام ابراہیم خلیل روڈ یاد کریں پہلی قسط میں ذکر کیا تھا خواب کا)۔
جلدی جلدی سامان اتار کر ہوٹل سے گروپ کا پوچھا پتہ چلا اب تک کوئی نہیں پہنچا ہم نے روم علیحدہ لیا تھا جسکے چارجز الگ لگے تھے آپ گروپ کے ساتھ روم شئیر کریں تو پیسے کچھ کم ہوجاتے ہیں مگر ہمارے میاں جی نے سہولت دیکھی اور ڈبل روم لیا تو ہمیں روم کی چابی بلکہ ایک ڈیجیٹل کارڈ ہوٹل والوں نے تھما کر ایک ویٹر کے ساتھ لفٹ کا رستہ دکھا دیا ہوٹل کا نام تھا " مطعم ال یاجد "۔
آج بھی یاد ہے اور ہم شاید پندرہویں مالے پر پہنچے اور دروازہ کھول کر فورآ وضو کرنے لگے میاں نے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہاں محترمہ دم لے لو سب آئیں گے تو چلیں گے حرم مگر بے چین وہ خود بھی تھے تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھے اور بولے جب یہاں پہنچ ہی گئے تو کیا انتظار ہمت ہے تو چلیں کہا چلیں نہیں اڑیں بھاگیں ہوٹل پہنچنے کے پندرہ منٹ بعد ہی اسپرنگ بیگ کمر پر لاد کر نیچے پہنچ گئے وہاں لاونج میں صاحب سے پوچھا حرم کہاں ہے؟ ؟
اس نے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بولا یہ روڈ سیدھی حرم شریف جاتی ہے ناک کی سیدھ میں چلے جاو دو بے چین زائرین ہاتھ پکڑ کر چل پڑے اللہ کے گھر کی طرف دل مارے خوف کے دھڑک دھڑک کر بے قابو اتنا بھی یاد نہیں رہا کہ بچوں کو اطلاع ہی کردیتے کہ خیریت سے پہنچ گئے وہ بچے جنکے لیئے اماں باولی ہوئی۔۔

