Safar e Ishq (16)
سفر ِعشق(16)
اب سفر کا اختتام قریب تھا دن قریب آرہے تھے، دل کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ پتہ نہیں کیوں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ابھی تھوڑا سا بوجھ اور ہے کاندھوں پر وہ بھی اتر جاتا تو اچھا تھا۔ حرم میں جاکر اوپر کی منزل پر بیٹھ کر خانہ خدا کو تکتی رہتی تھی، نا تلاوت نا تسبیح کسی چیز میں دل نہیں لگتا تھا کبھی بہت رونا آتا تھا کبھی عجیب سکون ملتا تھا مگر میں تکتی رہتی تھی خانہ کعبہ کو، دل میں کچھ شکوے تھے اللہ میاں سے انہیں دہراتی تھی، کبھی کچھ باتوں پر شکریہ ادا کرتی تھی اللہ کا۔
زیادہ تر شکوے ہی ہوتے تھے کہ اللہ کے ناشکرے بندے جو ٹھہرے۔ میرے میاں جی مجھ سے کہتے تھے کیوں بیٹھی ہو بیماری کی حالت میں؟ ہوٹل جاکر آرام کرو میں کہتی تھی جانے کب اب زندگی میں خانہ خدا کے سامنے بیٹھ کر دل ہلکا کرنے کا موقع ملے؟ بیٹھے رہو بس بیٹھے رہو تکتے رہو۔ (ہم نادان بندوں کو کب ادراک وہ تو شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے بس سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خانہ کعبہ تو بس ایک استعارہ ہے)۔
مگر ایک کشش بہرحال ہے جو لوگ وہاں جاچکے ہیں انہیں خبر ہوگی اس بات کی کہ خانہ کعبہ پر جتنی بار نظر پڑتی ہے اللہ کا جلال تو دکھائی دیتا ہے مگر ایک عجیب سا کھنچاؤ بھی محسوس ہوتا ہے۔ یہ دو متضاد کیفیات ایک ساتھ میں نے زندگی میں پھر کبھی محسوس نہیں کی نا عمرے پر جانے سے پہلے نا آنے کے بعد کبھی۔ واپسی سے پہلے جمعے کے روز ہم صبح دس بجے ہی جمعے کی نماز کے لیئے پہنچ گئے مگر مطاف میں داخل نا ہو پائے اتنا رش تھا مگر اندر جگہ مل گئی خطبہ سنا، نماز پڑھی اور واپسی کے لیئے باہر نکلے۔
سوچا تھا آخری دن ہے کل جو کچھ لوگوں نے پیسے دیئے تھے اکرام کرنے کو کچھ خرید کر بانٹ دیں۔ ایک بات بتانا چاہتی ہوں کبوتروں کو دانہ بے شمار لوگ ڈالتے ہیں وہ جھاڑو سے سمیٹ کر بدو عورتیں پھر بیچ دیتی ہیں یا پھر صفائی کا عملہ ضائع کردیتا ہے، بہتر ہے تھوڑا سا دانہ ڈالیں باقی پیسوں سے حرم میں کرسی رکھ دیں یا کھجور وغیرہ خرید کر بانٹ دیں۔ اگر اچھی حیثیت ہے تو زیادہ اکرام کریں مگر راہ چلتے لوگوں کو پیسے نا دیں۔
ہمارے گروپ کی ایک خاتون جو حفصہ کی ساس تھیں وہیل چئیر پر رہتی تھیں زیادہ تر۔ ایک دن ان کی بہو حفصہ انہیں ایک جگہ چئیر پر بٹھا کر وضو کرنے گئی تو چند خواتین جو شاید ٹرکش تھی انہیں زبردستی پیسے پکڑا گئیں۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے منع کرتی رہیں مگر وہ نذر نذر کہہ کر زبردستی پکڑا گئیں، بعد میں پتہ چلا یورو تھے۔ ہم ان سے ازرہ مذاق پوچھتے بھی رہے آنٹی جگہ بتادیں ہم بھی کھڑے ہوجاتے ہیں وہاں۔ اس لیئے پیسے نادیں تسبیح دے دیں، قرآن رکھ دیں، حرم میں کرسی رکھ دیں زیادہ بہتر ہے۔
ہم سے ایک دن پہلے سارے گروپ کو نکل جانا تھا کیونکہ ان کی براستہ دبئی فلائیٹ تھی، ہماری ڈائریکٹ وہاں قائدہ ہے۔ بارہ بجے روم خالی کروالیتے ہیں ٹرانسپورٹ کا بندہ بس میں بٹھا کر ائیرپورٹ چھوڑ آتا ہے، اب بیٹھے رہیں اپنی فلائیٹ کے انتظار میں۔ ہمارے ساتھ ہوا یہ کہ پاسپورٹ لبنٰی کے ہزبینڈ یعنی گروپ لیڈر کے پاس تھا۔ وہ نکل گئے ہم شدید پریشان فون پر بھی رابطہ نا ہوکر دے۔ صبح فجر میں میں، میاں صاحب کو حرم لے گئی۔
الوداعی طواف ہم رات میں ہی کرچکے تھے مگر سوچا ہوٹل میں بیٹھ کر کیوں وقت برباد کریں؟ حرم ہی چلتے ہیں وہاں جاکر دل کو تھوڑی تسلی ہوئی دعا کی اللہ پھر حاضری کی توفیق دے اور اگلی بار بچوں کے ساتھ موقع دے آمین۔ ہوٹل واپس آکر ریسپشن پر موجود فلپائینی لڑکے سے معلوم کیا کوئی ہمیں پوچھتا آیا تھا یا نہیں؟ مگر بے سود بڑی مشکل میں تھے کہ شائستہ باجی کی کال آئی، انہوں نے بتایا کہ تم لوگوں کے پاسپورٹس ٹرانسپورٹ والا لے کر آئے گا۔
ابھی انہوں نے لبنٰی کے ہزبینڈ سے پوچھ کر ہمیں اطلاع دینے کے لیئے فون کیا کہ ان کو اندازہ تھا بنا بتائے گروپ لیڈر صاحب چلے آئے، ہم کتنے پریشان ہونگے؟ بہرحال جان میں جان آئی ہم روم خالی کرکے بمعہ سامان لابی میں بیٹھے تھے کہ میری حالت دیکھ کر فلپائنی ریسپشنسٹ نے روم کا لاک کارڈ میرے میاں جی کو دے دیا کہ وائف سے کہیں جاکر اوپر آرام کرلیں۔ ابھی کارڈ پنچ نہیں ہوا مجھے شدید ضرورت تھی اس وقت آرام کی، اوپر چلی گئی ایک گھنٹے بعد میاں جی نے کال کرکے بلالیا کہ بس آنے کی اطلاع ملی تھی۔
خیر جی اللہ اللہ کرکے بس آئی جدہ لے جانے کے لیئے، جب ہمارے پاسپورٹ ہاتھ میں آئے تب جان میں جان آئی۔ سعودیہ کے قانون سے خوف زدہ تھے اگر فلائیٹ نکل جاتی یا پاسپورٹ نا ملتے تو بری طرح مصیبت میں پڑ جاتے۔ جدہ ائیرپورٹ میں ہمیں شام تین بجے لاکر پٹخ دیا گیا، شدید گرمی اندر لاونج میں داخلہ اتنی جلدی ممکن نہیں تھا کہ رات آٹھ بجے کی فلائیٹ تھی۔ مرتے کیا نا کرتے بیٹھے رہے باہر بینچز پر جب زیادہ گرمی ستاتی تو منہ پر چار چھینٹے مار آتے، چہرہ جھلس رہا تھا۔
اللہ اللہ کرکے اندر لاونج میں داخل ہوئے تو دوسری افتاد کہ بیٹھنے کو ایک اسٹول تک موجود نہیں یا اللہ کب تک کھڑے رہیں؟ کچھ دیر بعد ایک انڈونیشین گروپ ڈھیر ہوا فرش پر، ان کی دیکھا دیکھی ہم بھی ڈھیر ہوگئے لمبی قطار اور سست رفتار سعودی عملہ خوش گپیوں میں مصروف کرتے تو کیا کرتے؟ کسٹم کے مراحل سے فارغ ہوکر اندر داخل ہوئے مگر چند صوفوں کے علاوہ وہاں بھی بیٹھنے کو کچھ میسر نا تھا۔ عجیب احمق ہیں بھئی اتنے بڑے ائیرپورٹ پر اتنی ضروری چیز کا خیال ہی نہیں رکھا گیا؟
باہر سامان کے لیئے ٹرالی بھی پیسوں میں دیتے ہیں جبکہ جگہ جگہ لکھا ہے کہ فری ہے مگر کون سنتا ہے؟ زم زم بھی ایک پاسپورٹ پر ایک بوتل شاید پانچ لیٹر کی ایشو ہوتی ہے وہ بھی پیسے دے کر سہی دھندے بنا رکھے سعودیوں نے۔ خیر اندر انتظار کرتے ہوئے ایک کپل سے ملاقات ہوئی، کراچی ائیرپورٹ پر بھی خاتون سے دعا سلام ہوئی تھی چند لمحوں انہیں ہئیر پنز کی ضرورت تھی تو بات ہوئی تھی۔ آج واپسی میں پھر ملاقات ہوئی ساس سسر ساتھ تھے، ینگ کپل تھا، تین بیٹیاں والدہ کے گھر چھوڑ کر عمرے پر آئی تھی۔
وہ اپنی بچیوں کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ مجھ سے بیٹے کے لیئے دعا کرنے کو بھی کہہ رہی تھی۔ کیا عجیب لوگ ہیں ہم اولاد ہو تو بیٹا یا بیٹی کی شرط لگاتے ہیں نا ہو تو تڑپتے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے۔ مجھے بھی اب بچوں کی یاد بری طرح ستارہی تھی اللہ کے گھر سے دور ہوتے ہی دنیا حاوی ہونے کی پہلی نشانی تھی یہ شاید گھر، بچے سب کی یاد آنے لگی۔ ویسے میں نے زندگی میں پہلی بار بچوں کو اکیلا چھوڑا تھا اس سے پہلے ایک روز کے لیئے بھی جدا نہیں ہوئی کبھی ان سے۔
خیر میاں جی نے پوچھا کچھ کھاوگی؟ کہ صبح کے ناشتے سے تھے۔ باقی کچھ نہیں کھایا تھا مگر راستے کے خوف سے انکار کردیا کہ سفر میں متلی اور سر چکرانے کی بیماری میں مبتلا رہتی تھی صرف چائے پی کر انتظار کرنے میں عافیت جانی۔ اللہ اللہ کرکے فلائیٹ کا اعلان ہوا اندر ایک الگ ہی نظارہ تھا ایسا لگ رہا تھا چیچوں کی ملیہ سے کامونکی جا رہے۔ سارے پنجابی بھائی، بہن منوں ٹنوں سامان لیئے چلے آرہے ائیر ہوسٹس چیخ رہی یہ ہینڈ کیری میں کیسے لے آئے بھائی؟
جہاز میں الاؤڈ نہیں مگر وہ کھڑے بحث کررہے باجی جان دیوں کی فرق پیندا اے، ائیرہوسٹس چیخ کر رکھو گے کہاں؟ بھائی جان اشارہ کرکے فرش پر رکھ دیں گے جی کی فرق پیندا اے۔ بے چاری ساری ائیر ہوسٹسز ہراساں گھوم رہیں، چیخ رہیں اوور ویٹ ہوجائے گا پلین بھائی ایسا نہیں ہوتا تمھیں چھوڑا کیسے ائیرپورٹ عملے نے؟ مگر جی انہوں نے کہاں سننا سنانا اب تو ایڈجسٹ کرنا ہی تھا خیر کسی طرح یہ مرحلہ نمٹا اور جہاز نے جدہ کی زمین چھوڑ دی۔
ہم نے آخر ی بار حسرت سے اس سرزمین کو دیکھا اور سوچا جانے اب زندگی میں کبھی یہاں آنا نصیب ہوگا کہ نہیں؟ اللہ حافظ اے مقدس سرزمین اللہ حافظ۔ اب فکر تھی بخیریت اپنے بچوں سے ملنے کی، کراچی ائیرپورٹ سے ہمارا گھر پیدل فاصلے پر ہے مگر ظاہر ہے پیدل تو جانا نہیں افورڈ کرسکتے تھے۔ چھوٹے بیٹے سے کہا معراج بھائی کے ساتھ فلاں وقت آجانا(معراج ہمارا پڑوسی ہے جاتے وقت بھی وہی ائیرپورٹ چھوڑنے گیا تھا)۔
جیسے ہی لاونج سے بے صبری سے باہر نکلی سامنے چھوٹا والا چلتا ہوا اپنی جانب آتا نظر آیا، اسے ہاتھ کےاشارے سے بلایا۔ بھاگتی ہوئی اس کے پاس گئی سیدھا بھینچ کر اسے گلے لگایا وہ بھی نم آنکھوں سے مبارک دیتا رہا۔ گھر کی جانب گاڑی چلی اور دنیا داری کے جھمیلے بھی ساتھ شروع۔ یہ پندرہ روز کسی خواب کی طرح یادوں میں بس گئے آج بھی سوچوں تو یقین نہیں آتا کہ کیسے اچانک بلاوہ آیا اور کیسے میں سب کچھ چھوڑ کر چل پڑی؟ اسے ہی بلاوہ کہتے ہیں۔
کیسے کیسے لوگ ملے وہاں؟ سب کی زبان پر ایک بات بس اچانک ہی آگئے شاید اللہ کا بلاوہ ایسا ہی ہوتا ہے چاہے اپنے گھر بلائے، چاہے قبر میں۔ ہم آخری وقت تک انجان ہی ہوتے ہیں، تیاری رکھیں کبھی بھی ہم میں سے کسی کا بھی کہیں کا بھی بلاوہ آسکتا ہے اور ہم سب چھوڑ چھاڑ کر ہاتھ جھٹک کر چل پڑیں گے۔ کیا بچے، کیا گھر، کیا والدین سب کچھ چھوڑ کر روآنہ ہوجائیں گے کہ بلاوے سے انکار کی جرات کس کو ہے؟ اللہ سے دعا ہے جس جگہ بھی جائیں اس کی رحمت و تائید ساتھ لے کر جائیں۔
اللہ ہم سب کو موت سے پہلے ایک بار ضرور اپنے گھر کا دیدار کرائے آمین ثمہ آمین، اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو آمین۔ اتنے ذوق و شوق سے میرے اس سفر نامے کو پڑھنے کا شکریہ نہایت سادہ الفاظ میں جو دل میں تھا لکھ ڈالا کوئی تصنع اور کوئی حاشیہ آرائی کیئے بغیر یہ مقدس سفر تھا۔ ظاہر ہے دلچسپی کی چیزیں نہیں تھیں اس میں مگر کوشش کی کہ انداز بیان سادہ رکھوں کہ پڑھنے والے پر گراں نا گزرے۔

