Safar e Ishq (15)
سفر ِعشق(15)
مدینے سے روانگی ہوئی، احرام باندھ لیئے گئے۔ مدینے سے عمرے کے لیئے نکلیں تو میقات مسجد شجرہ ہے وہاں وضو کرکے دو رکعت نفل پڑھ کر عمرے کی نیت کرلی جاتی ہے۔ ہمارا ہوٹل اب بدل گیا تھا شاہراہ ابراہیم خلیل کے ساتھ جو سروس روڈ کبوتر چوک سے اندر جارہی ہے وہاں تھا۔ روم اتنا بڑا کہ سات سنگل بیڈ پڑے تھے پتہ چلا کہ ڈبل روم نہیں تھا تو کیونکہ ہمارا معاہدہ ڈبل روم کا تھا تو ہمیں یہ روم دے دیا گیا۔ سب سے خوبصورت چیز اس ہوٹل روم کی یہ تھی کہ کھڑکی کھولتے ہی نظروں کے سامنے کلاک ٹاور چمک رہا تھا۔
سامان رکھ کر عمرے کے لیئے روانہ ہوگئے طبعیت بہت خراب تھی میری، عمرے کے بعد روم میں تقریبََا گر گئی۔ اتنے میں فون آیا کہ غار حِرا کا قصد ہے کل صبح میں مچل گئی کہ جانا ہے مگر گروپ لیڈر صاحب جو ہماری دوست کے میاں تھے انہوں نے ٹھیک ٹھاک پیسے بتادیئےخیر پھر بھی ہم تیار تھے مگر گروپ کے بہت سارے ممبرز کا پیسوں کو لے کر اور بیماری کی وجہ سے جانا کینسل ہوگیا اور آخر وقت میں ہم اس سعادت سے محروم ہوگئے جس کا قلق مجھے آج بھی ہے خیر جو اللہ کی مرضی۔
(بہتر ہے روانگی سے پہلے زیارات کی بابت باتیں طے کرلی جائیں وہاں جاکر اکثر یہی بدمزگی کا سبب بن جاتا ہے)۔
دوسرے دن سوچا پھر عمرہ کرلیتے ہیں مگر میری طبعیت کی وجہ سے وہ بھی نا ہوسکا۔ میری کزن جو عزیزیہ میں رہتی ہے اس کا نہایت غصے بھرا فون آیا کہ مجھے آنے کی اطلاع کیوں نا کی؟ ہوٹل بتاؤ، سامان اٹھاؤ، میرے گھر آؤ۔ میرے ہزبینڈ نے بہت نرمی سے معذرت کی کہ آپ کو بھی پریشانی ہوگی اور ہم بھی بغرض عبادت آئے ہیں اس لیئے زیادہ وقت حرم میں گزارنے کو بہتر سمجھتے ہیں (وہ ناراضگی آج بھی برقرار ہے)۔
خیر ہمارے ٹی بیگز ختم ہوچکے تھے میاں بنگلہ دیش کا کوئی برانڈ رائل کے نام سے نیچے سے لے آئے، میں نے زندگی میں آج تک اتنی بہترین چائے نہیں پی۔ شاندار ٹی تھی بعد میں افسوس ہوا کہ چند پیکٹس لے آتے خیر دوسرے روز سوچا نفلی طواف کرلیں گے کہ شائستہ باجی کا فون آیا انہیں کچھ سامان ہمارے بیگ میں رکھنا تھا۔ ہم ان کے ہوٹل گئے کچھ دیر بعد شدید گھٹا چھا گئی اور بارش کے ساتھ تڑاتڑ اولے برسنے لگے۔
میں اور حنا روم کی بالکنی میں کھڑے اولے دیکھ رہے تھے کہ میاں جی بولے چلو بھاگو حرم چلتے ہیں طواف کا مزا آئے گا۔ ہم بھاگے مگر میاں جی کی سفید شلوار پر گندے پانی کے چھینٹے پڑ گئے جب تک ہوٹل جاکر اسے بدلتے بارش ختم۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا پانی جو سیلاب کی صورت بہہ رہا تھا اسے سینٹری ورکرز نے وائپرز کی مدد سے بالکل خشک کر دیا تھا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہاں شدید برسات اور اولے برسے ہیں۔
خیر حرم پہنچے جانے کیا سوچ کر اوپر کے پورشن میں طواف کرنے پہنچ گئے، اوہو اتنا طویل طواف ہوگیا کہ ٹانگیں درد کرنے لگیں۔ اوپر کی منزل میں دائرہ بڑھ جاتا ہے تو راستہ بڑھنے کی وجہ سے طواف بھی طویل ہوجاتا ہے مگر نیچے رش بہت ہوتا ہے خیر یہ تجربہ بھی کرلیا۔

