Safar e Ishq (14)
سفر ِعشق(14)
اب مدینہ سے جدائی کے دن قریب آرہے تھے دلی کیفیت بہت عجیب تھی۔ ایک بات آپ سب سے شئیر کروں کہ مدینہ میں بے حد سکون ہے مدینہ کے مقامی ہوں یا زائرین سب میں مجھے ایک ٹھہراؤ سا محسوس ہوا۔ مکہ میں شاید اللہ کا جلال ہے یا کیا ہے؟ شاید خوف خدا جو ہر پل ہم گناہ گاروں کو اندر سے کچوکے مار کر شرمندہ کرتا رہتا ہے مگر مدینہ میں سرکار کی محبت اور ان کا وعدہ کہ اپنی امت کو بخشوا کر جنت تک لے جاؤں گا سوائے منکرین اور گناہِ کبیرہ کے مرتکب لوگوں کے۔
ہر امتی کو یہ یقین ہونا چاہیئے کہ ہم اس نبیؐ کے امتی ہیں جو محبوب خدا ہیں اور عاشق معشوق کی بات کب رد کرتا ہے؟ دوسرے روز میرے ہزبینڈ نے مجھ سے کہا کہ تم لبنٰی کے ساتھ اس کے ہوٹل چلی جانا آج میں ریاض الجنہ اور روضے پر حاضری کے لیئے جاؤں گا، پتہ نہیں کتنی دیر لگ جائے واپسی پر تمھیں لے لوں گا۔ اس لیئے عصر کی نماز کے بعد میں حنا کے ساتھ سامنے ہوٹل رواسی السفیر کے لیئے نکلی۔
حنا کو اپنی بیٹیوں کے لیئے کچھ خریداری کرنی تھی تو ہم پہلے بن داؤد شاپنگ پلازہ میں گھس گئے (اگر آپ مدینہ سے کچھ لینا چاہتے ہیں تو طیبہ التجاری یا بنگالی بازار سے لیں باقی سب بہت مہنگا ہے ویسے زائرین صرف گھومتے پھرتے ہیں خریداری کم ہی لوگ کرتے ہیں کہ ریال میں چیزیں بہت مہنگی پڑ جاتی ہیں )۔ بہرحال حنا مجھے لے کر دس ریال شاپ پر گئی جہاں ہر چیز دس ریال کی تھی کیا پرس، کیا بیگز، ٹوائز ہر شے ہماری کرنسی کے حساب سے اس وقت شاید ساڑھے تین سو بن رہے تھے۔
حنا کا بس نہیں چل رہا تھا اپنی چار بیٹیوں کے لیئے ساری دکان خرید لے بیٹیوں سے بچھڑی ہوئی تھی، مامتا عروج پر تھی نرمی سے سمجھا کر اسے ہوٹل لے آئی۔ وہاں سب بیمار پڑے تھے سب کے لیئے حفصہ چائے بنا بنا کر لارہی تھی (یہ وہی لڑکی تھی جسے میں نئی شادی شدہ سمجھی تھی مگر دس برس ہوچکے تھے اس کی شادی کو وہ ہم سب سے بار بار اپنے لیئے دعا کا کہتی تھی اس کی اولاد نہیں تھی ہم سب نے اس کے لیئے بہت دعائیں کی۔
واپس آکر ایک دن پتہ چلا اللہ نے دس برس بعد اسے ایک نہیں دو جڑواں بچوں بیٹا اور بیٹی سے نوازا الحمدللہ!حفصہ کی ایک مہربانی اور ہے ہم سب پر کہ اس نے لائن میں لگ کر ہم سب کے لیئے " البیک چکن " لیا تھا ۔ کہتے ہیں مدینہ آئے اور البیک نا کھایا تو کیا کھایا مگر رش بہت ہوتا ہے لیکن خواتین میں رش کم ہوتا ہے تو ہم سب نے حفصہ کو اس کے میاں کے ساتھ بھیج دیا تھا۔ البیک والوں کی بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے کبھی شئیر کروں گی)۔
مغرب کے بعد جب میری ملاقات میرے شوہر صاحب سے ہوئی تو کچھ انوکھے سے رنگ تھے، ان کے چہرے بہت خوش نظر آرہے تھے۔ میں نے اس وقت کچھ نہیں پوچھا سوچا ہوٹل میں چل کر پوچھوں گی۔ وہاں روم میں جاکر بولے میرے ساتھ تو آج عجیب قصہ ہوا، میں اندر روضے پر جانے کے لیئے بھیڑ میں بیٹھا تھا کہ اچانک امام صاحب اپنے گارڈز کے ساتھ عصر پڑھانے آئے، سب کو پیچھے ہٹا دیا ہم چند افراد آگے تھے۔
ہم منبر رسولؐ تک ان کے ساتھ پہنچ گئے آگے امام صاحب، پیچھے گارڈ، ان کے پیچھے ہماری صف بالکل منبر رسولؐ کے ساتھ۔ نماز کے بعد جب رش چھٹ گیا تو مجھے افسوس ہوا کہ یہ نوافل کا وقت نہیں ہے۔ اب باہر کیا جاتا وہیں بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنے لگا کہ مغرب کے بعد نوافل پڑھ کر نکلوں گا۔ اچانک رش بہت کم ہوگیا میں سکون سے تلاوت کررہا تھا کہ ایک عرب میرے برابر آکر بیٹھ گیا، بے حد تنومند اور ادھیڑ عمر۔ انہوں نے اپنی کہنی میری ٹانگ پر رکھ کر باقائدہ لیٹنے کے سے انداز میں سہارا لے کر تسبیح پڑھنی شروع کردی۔
میری ٹانگ میں درد تو ہورہا تھا مگر سوچا ضعیف شخص ہیں شاید سیدھے نا بیٹھ پارہے ہوں اس لیئے چپ بیٹھا تلاوت کرتا رہا۔ انہوں نے کچھ دیر بعد تسبیح اپنے جبے میں ڈال لی اور میری تلاوت آنکھ بند کرکے سنتے رہے، کچھ دیر بعد سیدھے ہوئے اور جیب سے تسبیح نکال کر مجھے دے دی میں نے خاموشی سے رکھ لی۔ پھر چند منٹ بعد دوبارہ اشارے سے واپس مانگی میں پریشان کہ کیا غلطی ہوگئی مجھ سے؟ خیر واپس کردی۔
انہوں نے جیب سے ایک عطر کی شیشی نکالی اسے تسبیح پر لگا کر، اسے ریاض الجنہۃ کے کارپٹ پر رگڑا اور مجھے دوبارہ دے دی اور پیٹھ تھپک کر کچھ کہتے رہے میں بس شکرن شکرن کہتا رہا، پلے کچھ نہیں پڑا کیا کہہ رہے۔ اتنے میں مغرب کا وقت ہوگیا میں نیت باندھ کر نماز پڑھنے لگا جب سلام پھیرا تو حضرت غائب جبکہ مجھے اچھی طرح پتہ ہے وہ میرے ساتھ ہی نیت باندھے کھڑے تھے اور فل پیک صفیں تھیں، ایسے کیسے ہوا میں تحلیل ہوگئے؟
خیر میں نے کہا زیادہ نا سوچیں یہ جگہ ہی معجزات کی ہے آپ مجھے تسبیح دکھائیں، یقین کریں عام پلاسٹک کے دانوں کی تسبیح تھی مگر اس میں سے جو خوشبو آرہی تھی وہ کمال تھی۔ روم میں خوشبو بھر گئی میرے میاں جی کے ہاتھ، کپڑوں سب سے خوشبو آرہی تھی جسے میں راستے بھر محسوس کرتی آرہی تھی مگر پتہ نہیں تھا کہاں سے آرہی؟ اب پتہ چلا آخر ایسی کونسی عطر کی شیشی تھی کہ پاکستان واپس آکر بھی مہینوں کپڑے دھلنے کے بعد بھی خوشبو نا گئی، تسبیح بھی مہکتی رہتی تھی۔
وہ اب بھی میرے پاس ہے میاں کو کاونٹر پر پڑھنے کی عادت ہے تو تسبیح مجھے دے دی بلکہ میں نے لے لی تھی ان سے۔ میں کوئی کم سمجھ اور توہمات پر یقین رکھنے والی خاتون نہیں ہوں نا اس دور میں معجزوں پر یقین رکھتی ہوں مگر کچھ چیزیں ہماری سمجھ سے باہر ہوتی ہیں انہیں زیادہ سوچنا نہیں چاہیئے۔ مگر اس کے بعد میرے شوہر نامدار میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی وہ قرآن تو پڑھتے تھے مگر پابندی سے نہیں۔ اب وہ روز فجر کے بعد پابندی سے مختلف آیات اور قرآن کا ورد کرتے ہیں۔
یہ بات میں نے ان سے نہیں کہی مگر مجھے یہ تبدیلی محسوس ہوئی۔ دوسری ایک اور بات انہوں نے اپنی بڑی بہن سے کہی کہ آپا مجھے یٰسین شریف یاد نہیں تھی مگر اب اچانک ایسا لگتا ہے کہ حفظ کی ہو۔ اس کی وجہ دونوں بہن بھائی یہ ڈسکس کررہے تھے کہ روز پڑھتے ہیں تو یاد ہوگئی مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اس وقت یٰسین ہی پڑھ رہے تھے ریاض الجنۃ میں جب ان صاحب نے ان کی تلاوت سنی اور خوش ہوکے تسبیح تحفے میں دی مگر میں نے انہیں یہ بات یاد نہیں دلوائی۔

