Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aslam Javed
  4. Kia Hum Tayar Hain

Kia Hum Tayar Hain

کیا ہم تیار ہیں

جنوبی ایشیا ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پہلگام حملے کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان پر روایتی انداز میں الزامات کی بوچھاڑ کی گئی ہے۔ بھارتی میڈیا، سیاسی قیادت اور فوج سب کے بیانات جنگی ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی روکنے کی دھمکیاں بھی دی جا چکی ہیں، جو جنگ سے پہلے ایک خاموش وار ہے۔ لیکن اس ساری صورت حال کا سب سے بڑا سوال یہ ہے: کیا ہم بطور قوم، بطور ریاست اور بطور قیادت، اس ممکنہ جنگ کے لیے تیار ہیں؟

بھارت میں ماضی کی طرح اب بھی بی جے پی الیکشن سے پہلے پاکستان دشمنی کا بیانیہ چلا رہی ہے۔ پہلگام حملہ خواہ کسی کی بھی سازش ہو، لیکن بغیر تحقیق، بغیر شواہد، پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرا کر جنگ کی راہ ہموار کرنا انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ ایسے موقع پر ایک ذمہ دار اور جمہوری ریاست کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ جذبات سے نہیں، دانشمندی سے فیصلے کرے۔

لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات ایسے کسی بڑے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے کس حد تک موزوں ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ آج پاکستان شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ معاشی تباہی، مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی انتقام، عوام میں مایوسی اور سب سے بڑھ کر قیادت کا بحران یہ سب کسی بھی جنگی کیفیت سے نمٹنے کی صلاحیت کو زوال پذیر کر چکے ہیں۔

ایسے حالات میں ایک اور سوال ابھرتا ہے: کیا موجودہ "سیلیکٹڈ" حکومت جنگی حالات کی ذمہ داری سنبھال سکتی ہے؟ اس کا سادہ جواب "نہیں" ہے۔ قوم کا موجودہ سیٹ آپ پر اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ عوام خود کو لاوارث محسوس کر رہے ہیں، فوج اور عوام میں فاصلہ واضح ہو چکا ہے اور اس فاصلے کو کم کرنے والی کوئی قومی قیادت میدان میں نہیں۔

ایسے وقت میں سب کی نگاہیں ایک ہی شخصیت پر جا ٹھہرتی ہیں: عمران خان۔

دو سال سے ایک بے بنیاد مقدمے میں قید، بار بار عدالتی فیصلوں کے باوجود رہا نہ ہونا اور ان کی مقبولیت کے باوجود سیاسی نظام سے باہر رکھا جانا، یہ سب نہ صرف سیاسی انتقام کی نشانی ہے بلکہ قوم کی تقسیم کی بڑی وجہ بھی۔ عمران خان صرف ایک سیاسی رہنما نہیں، بلکہ اس وقت وہ واحد شخصیت ہیں جو فوج، عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں صرف ملک کے اندر سیاسی خلفشار کو ہوا دیتی ہیں اور کسی بھی جنگی بحران میں یہ ایک زہر قاتل بن سکتا ہے۔

اگر جنگ ہوتی ہے، یا حتیٰ کہ جنگی دباؤ میں پاکستان آتا ہے، تو اس کا مقابلہ صرف عسکری طاقت سے نہیں ہوگا۔ یہ اتحاد، یکجہتی اور عوامی طاقت سے ہوگا۔ عمران خان کی قید میں موجودگی اس یکجہتی کو سبوتاژ کر رہی ہے۔ ان کی رہائی، ان کا فعال کردار اور قومی قیادت کے طور پر ان کا شامل ہونا نہ صرف جنگی حالات میں قوم کو مجتمع کر سکتا ہے، بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو بھی تقویت دے سکتا ہے۔

بھارت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خطے کی سلامتی نفرت، الزام اور انتخابی مفادات سے نہیں چلتی۔ اگر واقعی بھارت خطے کا امن چاہتا ہے تو اسے ثبوت کے ساتھ بات کرنی ہوگی، پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر بنانے ہوں گے اور جنگی سیاست کو ترک کرنا ہوگا۔

پاکستان کو بھی اس موقع پر سنجیدگی سے فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے کس قیادت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب قوم دشمن کے مقابلے میں یک زبان ہونے کی متقاضی ہے، عمران خان جیسے لیڈر کو پسِ دیوار رکھنا نہ صرف سیاسی غلطی بلکہ قومی نقصان ہے۔

آج اگر جنگ ہوئی تو یہ صرف بموں، ٹینکوں یا ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ نہ ہوگی، بلکہ بیانیے، اتحاد اور اعتماد کی جنگ ہوگی اور اس جنگ میں وہی کامیاب ہوگا جس کے ساتھ قوم ہوگی۔ عمران خان اس قوم کی دھڑکن ہیں اور ان کے بغیر یہ دل ایک سمت میں نہیں دھڑک سکتا۔

لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی اس جنگی کیفیت کو قومی اتفاق میں بدلا جائے۔ اس کے لیے سب سے پہلا قدم عمران خان کی فوری رہائی، قومی مفاہمت اور شفاف سیاسی عمل کی بحالی ہے۔ دوسری طرف، بھارت کو جنگی جنون سے باہر آ کر خطے کو تباہی سے بچانے کے لیے مذاکرات کا در کھولنا ہوگا۔

ورنہ یہ جنگ کسی کی نہیں بچے گی۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali