1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Shahbaz Sharif Ka Dora Turkia Aur Mulk Mein Dehshat Gardi

Shahbaz Sharif Ka Dora Turkia Aur Mulk Mein Dehshat Gardi

شہباز شریف کا دورہ ترکیہ اور ملک میں دہشت گردی

وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے 7 فروری کو ٹوئیٹ کیا اور بتایا کہ وزیراعظم نے 9 فروری کو بلائے گئے اے پی سی کو منسوخ کر کے 8 فروری کو ترکی جانے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو بھی ہونگے جو ترک حکام سے ترکی میں آئے قیامت خیز زلزلے پر ان سے اظہار تعزیت کرینگے۔ اس خبر پر یقیناً آپ بھی اتنے ہی حیران ہوئے ہونگے جتنا میں حیران ہوا تھا۔ کہ آخر وزیراعظم اور وزیر خارجہ اس دورے سے ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟

اگر اس دورے سے ان کا مقصد اُن سے اظہار ہمدردی کرنی ہے تو وہ تو یہاں سے بھی ہو سکتی ہے۔ ہاں اگر وزیراعظم صاحب ان کی کوئی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے یہاں بیٹھ کر انتظامات اچھے سے ہو سکتے ہیں ناکہ وہاں جا کر مگرمچھ کے آنسو بہاتے رہیں۔ جیسے ہی یہ خبر آئی کہ وزیراعظم صاحب ترکی جا رہے ہیں تو سوشل میڈیا پر جیسے طوفان آیا اور ہر طرف سے وزیراعظم پر تنقید شروع ہوئی لیکن تنقید کی تو ان کی کوئی پروا ہی نہیں۔

وہ خدا بھلا کریں ترک حکام کا کہ انہوں نے وزیراعظم صاحب کو ترکیہ آنے سے روک دیا اور کہا کہ یہاں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور اس سے پروٹوکول کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لئے وزیراعظم صاحب جانے سے رک گئے۔ جیسے ہی میں نے یہ خبر پڑھی تو مجھے اس سے ایک ملتی جلتی کہانی یاد آئی۔ یہ بات ہے سال 1999 کی تب ترکی میں اسی طرح کا ایک تباہ کن زلزلہ آیا تھا اور نواز شریف وزیراعظم تھے۔

جیسے ہی نواز شریف کو ترکی میں آئے زلزلے کا پتہ چلا انہوں نے ترکی میں پاکستانی سفیر کو فون کر کے بتایا کہ میں ترکیہ آ رہا ہوں، تو سفیر نے انہیں سمجھایا کہ وزیراعظم صاحب یہاں تو قیامت آئی ہوئی ہے اور آپ کا یہاں آنا اب مناسب نہیں ہے۔ تو نواز شریف نے انہیں کہا کہ تو پھر میں کب آؤں؟ تو سفیر نے انہیں کہا کہ میں آپکو مناسب وقت پر آنے کا کہہ دونگا اور یوں ایک ہفتے بعد وزیراعظم نوازشریف ترکیہ چلے گئے۔ لیکن وہاں جا کر وہ استنبول میں موجود اپنے من پسند کباب منگواتے رہے اور ترکیہ میں انجوائے کرتے رہے۔

تو یہ شہباز شریف کی کوئی نئی بےوقوفی نہیں ہے۔ بلکہ اس طرح کی ایک حرکت اس کے بھائی صاحب نے بھی ماضی میں کی ہے اور شہباز شریف کا تو پھر بھی خیر ہے۔ مگر پتہ نہیں کہ یہ بلاول کو کیا ہوگیا تھا کہ انہوں نے بھی جانے کے لئے حامی بھر لی۔ شاید وہ بھی اپنی عادت سے ہی مجبور ہونگے کیونکہ جب سے وہ وزیر خارجہ بنے ہیں ہم نے اسے ایک دن کے لئے بھی ملک میں بیٹھے نہیں دیکھا اور اسے بھی لگا ہوگا کہ کیوں نہ اپنی عادت پوری کر لوں۔ ویسے بھی کوئی کام تو میں نے کرنا نہیں۔ کیوں نہ ترکیہ ہو آؤں۔

مریم اورنگزیب کی اس ٹوئیٹ میں دو باتیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ وزیراعظم صاحب ترکیہ جا رہے ہیں۔ ان سے تعزیت کرنے جس کی ان پر ٹھیک ٹھاک تنقید ہوئی اور انہیں اپنا فیصلہ غیر اعلانیہ طور پر واپس لے لیا۔ دوسری بات جو اس ٹوئیٹ میں تھی وہ یہ کہ وزیراعظم نے دہشتگردی کے معاملے پر بلائی گئی اے پی سی کو منسوخ کر کے ترکیہ جانے کا فیصلہ کیا۔ مطلب اپنا گھر جل رہا لیکن تماشہ کرنا ہے پڑوسی کے گھر کا۔

یہاں آپ کے ریڈ زون میں خودکش حملہ ہوا، سو سے زیادہ لوگ مر گئے اور آپ کو یہ تک نہیں پتہ کے یہ کس نے کیا ہے۔ اور معاملہ پر سنجیدگی کا یہ عالم ہے اس پر ابھی تک سیاسی قیادت نے مل بیٹھنے تک گورا نہیں کیا اور ہمدردی کرنی ہے ترکی سے۔ ہمدردی لائق تو ہم خود ہیں کہ ایک شخص آ کر آپ کے ساری سیکیورٹی چین کو توڑ کر آپ کے محفوظ ترین مقام پر حملہ کرتا ہے۔ سو لوگوں کو شہید کرتا ہے اور آپ کو احساس تک نہیں اس پر مجھے اردو کے مشہور شاعر جون ایلیا کا شعر یاد آ رہا ہے۔

"میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں"

اور آپ کچھ کرنے لائق بھی نہیں ہو۔ پشاور میں یہ کوئی واحد واقع نہیں تھا۔ بلکہ اس طرح کے واقعات پچھلے چھ مہینے سے ہو رہے ہیں اور ہر روز ہو رہے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تھوڑے سے بڑے لیول پر ہوا۔ ورنہ ہر روز پختونخوا میں کوئی نہ کوئی دہشتگردی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ لیکن ان کو ایک دن کی فرصت نہیں کہ اس پر مل بیٹھ کر کوئی گفتگو کر سکیں اور کوئی حل نکال سکیں کہ کب تک ہم جنازے اٹھاتے رہیں گے؟ کب تک اپنے قوم کے بچوں کو اپنی نااہلی کے ہاتھوں یتیم کرتے رہیں گے؟

Check Also

Saneha 9 May Ki Mafi?

By Tayeba Zia