1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Pakistan Deewalia Ho Chuka Hai

Pakistan Deewalia Ho Chuka Hai

پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے

پاکستان 23 دفعہ آئی ایم کے پاس جا چکا ہے۔ مطلب ہم 23 مرتبہ دیوالیہ ہوتے ہوتے بچیں ہیں۔ کیونکہ آئی ایم ایف کے پاس ایک ملک تب جاتا ہے۔ جب اس کا کوئی اور آسرا باقی نہیں رہتا اور وہ کسی بھی قیمت پر قرض لینا چاہتا ہوں، جیسے ہم نے سٹیٹ بینک ان کے پاس رکھوا دیا۔ اور جیسے عمران خان ایٹمی پروگرام کا نام لے کر عوام کو ڈراتے رہتے تھے۔

سری لنکا جو کچھ مہینے پہلے اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ وہ آئی ایم ایف کے پاس 16 مرتبہ جا چکا ہے۔ لیکن ہم اتنی سخت جان قوم ہے کہ تئیس مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمیں امید ہے کہ میں اگلی دفعہ کے لئے بھی قرضہ لینگے۔ اور دیوالیہ نہیں ہونگے۔ علم میں اضافے کےلئے بتا دو شہباز شریف پاکستان کا تئیس واں وزیراعظم ہیں۔

کچھ دن پہلے ایف بی آر کے سابق چئیرمین شبر زیدی نے کہا کہ پاکستان ٹکنیکلی ڈیفالٹ کرچکا ہے۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھے کہ ہم دیوالیہ کرچکے ہیں۔ بس اعلان کرنا باقی ہے۔ کیونکہ حکومت پاکستان کے پاس ادویات خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ کراچی پورٹ پر سبزی کے کنٹینرز پھنس چکے ہیں۔ اس کےلئے ڈالر نہیں ہے۔ ریلوے کے پاس پیسے نہیں ہے کہ وہ ریلوے کے پارٹس چائنہ سے امپورٹ کرسکیں۔

اور حکومت کے پاس صرف ایک مہینے کے زرمبادلہ کے ذخائر رہگئے ہیں۔ بیرونی ملک پاکستانی اب پیسے نہیں بھیج رہے ہیں۔ وجہ کوئی نہیں جانتا بس کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ شاید وہ عمران خان کے حکومت کے خاتمے پر ناراض ہے۔ لیکن وجہ جو بھی ہو۔ ملک میں ڈالرز نہیں آرہے ہیں اور معاشی حالت انتہائی خراب ہے۔ دوست ممالک ہاتھ بٹھانے کو تیار نہیں وہ بھی اب ہم سے نظریں چراتے رہتے ہیں۔

لیکن کیا صرف یہ سب دیوالیہ ہونے کے نشانیاں ہیں، میرے خیال سے نہیں۔ کیونکہ دیوالیہ ہونے کا معیار کہ ہمارے پاس بیرونی ادائیگیاں کرنے اور باہر سے چیزیں منگوانیں کےلئے پیسے نہیں رہے، اس لئے ہم اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ ہر گزایک معقول دلیل نہیں ہے۔ ویسے تو ہم آزادی کے پہلے دن سے ہی ایک دیوالیہ ملک ہے۔ مگر آخر دفعہ ہم اس دن دیوالیہ ہوئے، جس دن سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو بری کیا گیا۔

اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایک ملک کا نظام عدلسب سے خراب ہو اور وہ خود کو ایک مہذب ملک کہہ سکیں۔ اور دنیا کا معاشی طاقت بھی کہلائے۔ معروف صحافی وکالم نگار حسن نثار کہتے ہیں" ہمارا مسئلہ معیشت نہیں اخلاقیات ہے" ہم میں ایک قوم ہونے کے ناطے اچھے، برے اور صحیح اور غلط کی تمیز ختم ہوچکی ہیں۔

صرف معیشت کی بنیاد پر خود کو دیوالیہ کہنا خود غرضی اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ دشمنی ہیں۔ جب لوگوں میں یہ تمیز ہی ختم ہوگئی ہو اور ہر طرف ملاوٹ اور دونمبری عام ہو تو کیا خیال ہے۔ ہمیں خود کو کیا کہنا چاہئے۔ تقریباً چھ مہینے ہوگئی پاکستان میں سیلاب کو آئے ہوئے۔ کروڑوں لوگ اس سیلاب سےمتاثر ہوئے، لیکن حکومت پاکستان آج تک اُن کی کوئی خاص اور معقول مدد نا کرسکا۔

ہمیں اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان اس دن کرنا چاہئے تھا۔ جس دن ہم نے سیلاب متاثرین کے آگے ہاتھ کھڑے کردیں۔ ہم سے اپنے لوگ نہیں پالیں جارہے ہیں۔ جب ایک حکومت اپنے مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی مدد نہیں کر سکتی اور صرف امیر لوگوں کا محافظ بنی ہوی ہو۔ اسے حکومت کرنے کا کوئی اخلاقی جواز میسر نہیں ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں بھی ان سرمایہ داروں کا فائدہ ڈھونڈا جارہا ہے۔

جو پچھتر سال سے اس ملک کو کھا رہےہیں۔ یہ حکومت ان کے حرص کے لئے سامان جمع کر رہی ہیں ورنہ یہ حکومتیں کب کی فیل ہوچکی ہیں۔ اس ملک کو سنبھالنے میں ان کی کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔ عدل و انصاف نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ رات کو آپ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے کب کوئی کسی کو مارے کچھ پتہ نہیں۔ علاج ہمیں میسر نہیں تعلیم کا یہ حال ہے کہ ہر سال لاکھوں نوجوان ڈگریاں لیتے ہیں۔

لیکن نوکری نام کے کسی چیز سے وہ وقف نہیں کیا آپ کواب بھی نہیں لگتا کہ ہمیں اس ملک کودیوالیہ قرار دینا چاہئے تھا۔

کالم کی دم۔

پاکستان کو اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان بہت پہلے کرنا چاہئے تھا۔ کیونکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ چند ڈالر لیکر کہیں کہ ہم نے معیشت کو بچا لیا۔ یہ کام تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔ بلکے میرے جیسا بے وقوف بھی یہ کرسکتا ہے۔ کشکول لیکر نکلو چند ڈالر لے آؤ اور بھنگڑیں ڈالنا شروع کرو کہ ہم نے معیشت کو بچا لیا۔ کارخانے بند پڑے ہوئے ہیں۔ گیس کی کمی ہے۔ روز گار نام کے کسی چیز سے آج کا نوجوان واقف ہی نہیں۔ تو پھر تم کیوں کہتے ہو۔ کہ میں نے اپنی سیاست ریاست کے لئے قربان کر دی۔

Check Also

Dard e Dil Ke Wastay

By Sanober Nazir