1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Larai Do Baron Ki

Larai Do Baron Ki

لڑائی دو بڑوں کی

نومبر 29 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائرڈ ہوئے تو عمران خان نے انہیں اپنا دشمن نمبر ون بنایا اور اپنے دور حکومت کی ہر ناکامی کو جنرل باجوہ کے کھاتے میں ڈالنا شروع کیا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ جنرل باجوہ پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ وہ ان کی ہر بات کا یقین کرتے اور آخر میں جنرل باجوہ نے ڈبل گیم کھیل کر انھیں دھوکا دیا۔ اب ایسے الزام پر جنرل باجوہ کہا پیچھے رہنے والے تھے۔ انہوں نے بھی اپنی الوداع تقریر اور صحافیوں سے بطور آرمی چیف اپنی آخری ملاقات میں دل کھول کر عمران خان پر تنقید کی اور ساتھ میں عمران خان کو اپنی بھرپور سپورٹ اور عمران خان کے ڈیلیور نہ کرنے کا بھی شکوہ کیا۔

آئیں جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کا محسن بلکہ شہریار آفریدی کے بقول ان کے والد کب اور کیسے ان کے دشمن نمبر ون بن گئے؟ جنرل باجوہ اور عمران خان کی کیمسٹری سال 2018 سے شروع ہوئی۔ ویسے تو عمران خان کو جنرل باجوہ کے بڑوں سے کافی پرانا یعنی جنرل حمید گل کے زمانے سے تعلق چلا آ رہا ہے۔ مگر موضوع کی مناسبت سے ہم جولائی 2018 سے ہی شروع کرتے ہیں۔ جب ملک میں عام انتخابات ہو رہے تھے۔ نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ جیل میں تھے اور عمران خان اپنی مقبولیت کی انتہاؤں پر تھے۔

اُس الیکشن میں تحریک انصاف کو اپنی بےانتہاء مقبولیت کے باوجود صرف 155 نشستیں ملیں۔ سب سے زیادہ نشستیں جیتنے پر تحریک انصاف کے رہنماء خوش تو بہت تھے مگر ساتھ میں پریشان بھی بہت تھے کیونکہ حکومت بنانے کے لئے یہ نشستیں ناکافی تھیں۔ تحریک انصاف کو حکومت سازی کے لئےکم از کم 172 نشستیں درکار تھیں۔ اب یہاں سے جنرل باجوہ کی تحریک انصاف کے لئے خدمات شروع ہو جاتی ہیں۔ اور وہ ان تمام سیاسی پارٹیوں کو جو آمریت میں آمروں کے کام آتی تھیں عمران خان کے گرد جمع ہوئی۔

جیسے ایم کیو ایم، ق لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی وغیرہ، ساتھ میں ہمیں جہانگیر ترین کے جہاز کا کردار بھی نہیں بھولنا چاہئے۔ اس طرح ہوتے ہوتے تحریک کے 172 نمبر پورے ہوئے اور انہوں نے اپنی حکومت قائم کی۔ حکومت میں آتے ساتھ ہی انہوں نے سو دنوں کا پلان متعارف کیا جو بُری طرح فلاپ ہوا۔ پھر چھ مہینے اور آخر میں ایک سال لیکن کوئی بھی پلان سودمند ثابت نہیں ہوا۔ اور یوں ایک کے اوپر ایک پلان اور منصوبہ فلاپ ہوتا گیا صحت انصاف کارڈ کے سوا لیکن ان کی سپورٹ جاری رہی جس نے ساتھ نبھانےکا وعدہ کیا تھا۔

بجٹ کے نمبر پورے نہیں ہو رہے انہوں نے پورے کیے۔ کوئی بل پاس نہیں ہو رہا، پاس کروایا۔ باہر سے قرض نہیں مل رہا خدمات فراہم کیں۔ لیکن پھر غلط فہمی اور لڑائی اس دن سے شروع ہوئی جس دن آرمی چیف نے اپنی پسند کا آئی ایس آئی چیف لگایا۔ اور عمران خان سے نہیں پوچھا جس پر عمران خان کو غصہ آیا اور کہا کہ وزیراعظم ہاؤس کی بھی کوئی عزت ہے؟ یہ کوئی ربڑ سٹیمپ نہیں ہے کہ کسی نے نام بھیجا اور دستخط ہوگیا۔ یہاں سے پہلی دراڑ پڑی بعد میں حالات نارمل تو ہوئے لیکن پہلے جیسے نہیں رہے تھے۔

پھر ہوا کچھ یوں کہ عمران خان روس چلے گئے اور جب واپس آئے تو اس وقت سے جب حالات خراب ہوئے دوبارہ پھر کبھی ٹھیک نہیں ہوئے۔ اور اس کا انجام تحریک عدم اعتماد کے کامیابی کے صورت میں سامنے نظر آیا۔ اب عمران خان کا یہ خیال ہے کہ میری حکومت جنرل باجوہ نے گرائی کیونکہ جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سامنے آئی تو انہوں نے عمران خان کی کوئی مدد نہیں کی۔ حالانکہ ق لیگ کے رہنما مونس الٰہی یہ واضح کر چکے کہ جنرل باجوہ نے ہمیں کہا تھا کہ آپ تحریک انصاف کی طرف چلے جائیں لیکن عمران خان کہا ان سب باتوں کو ماننے والے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے پاس تو اختیارات تھے ہی نہیں یہ تو باجوہ تھے جو فیصلہ کرتے تھے کہ کس کو نیب کے ذریعے جیل میں ڈالنا ہے اور کس کو نہیں۔ ان کے دور حکومت میں صحافیوں پر جتنے بھی حملے ہوئے ہیں عمران خان ان سب سے انکاری ہے اور یہ کہتے دیکھائی دیتا ہے کہ یہ میں نے نہیں کیا بلکہ مجھے تو ان سب کا پتہ ہی نہیں ہے۔ یعنی کہ وہ یہ سب بھی جنرل باجوہ کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عمران خان اپنے دور میں خود کو ایک بااختیار اور کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد وزیراعظم کہتے تھے۔ وہ تو باجوہ کی قسمت خراب ہے کہ جیسے ہی وہ ریٹائرڈ ہوئے ان کی شامت آ گئی۔

کالم کی دم۔

سچی بات بتاؤں تو یہ ہمارے حکمرانوں کی عادت بن چکی ہے کہ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہر کارنامے کو اپنے سر لیتے ہیں اور ہر ناکامی کو میڈیا کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی حکومت سے باہر نکل آتے ہیں اسی ناکامی کو اپنی ناکافی اختیارات کا بہانہ بنا کر فوج کے کھاتے میں ڈالنے کے کوششیں شروع کرتے ہیں۔ اور اسی سے اپنا بیانیہ بنا کر عوام کو پھر سے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش شروع کرتے ہیں۔ ایسے جیسے عمران خان آج کل کر رہا ہے اور جیسے ماضی میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کیا کرتے تھے۔

Check Also

Taseer Maseehai Ki

By Javed Ayaz Khan