1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Aik Cup Coffee Par Hangama To Hona Chahiye

Aik Cup Coffee Par Hangama To Hona Chahiye

ایک کپ کافی پر ہنگامہ تو ہونا چاہئے

جب سے کالم نگاری شروع کی بدقسمتی سے آج تک کسی خوشی کے خبر کو موضوع نہیں بنا سکا۔ کیونکہ جب سے میں نے لکھنا شروع کیا ہے۔ اس ملک میں کوئی اچھی خبر سننے کو ملی نہیں۔ تقریباً چار سال میرے لکھنے کو ہیں۔ لیکن آج تک ایسی کوئی خوشی کی خبر میرے قلم کے زیر نہیں آ سکی۔ جیسے میں اپنا موضوع بحث بنا سکا۔ آپ کے تجسس کو ختم کرنے کے لئے بتا دوں کہ میں نے کالم نگاری چار سال پہلے شروع کی۔ میں نے اپنا پہلا کالم عمران خان حکومت کے پہلی دفعہ آئی ایم ایف پروگرام جانے پر لکھا تھا۔ وہ آئی ایم ایف جس کے بارے میں عمران خان کہا کرتے تھے کہ خودکشی کر لونگا مگر آئی ایم ایف سے قرض نہیں مانگوں گا۔

عمران خان آئی ایم ایف کیا گئے۔ ہمارے اچھے دن اس وقت ختم ہوئے تو آج تک کسی اچھی خبر کے لئے ترس رہے ہیں۔ لیکن آج میرے ہاتھوں ایک اچھی خبر لگی ہے اور وہ اچھی خبر یہ ہے کہ کینڈا کے مشہور کافی برانڈ Tim Horton نے پاکستان میں اپنا پہلا ریسٹورنٹ کھول دیا۔ اور اپنی سیل کے پہلے دن انہوں نے اپنی ساٹھ سالہ تاریخ کی سب سے زیادہ فروخت کی اور یوں یہ ورلڈ ریکارڈ پاکستان کے نام رہا۔

Tim Horton کے بارے میں بتا دوں کہ یہ کینڈا کی ایک کافی برانڈ ہے۔ جس کی دنیا کے پندرہ ممالک میں 5، 532 ریسٹورنٹ ہیں تو یہ کوئی معمولی برینڈ بھی نہیں۔ تبھی تو پورے ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوا۔ شروع شروع میں تو مجھے یقین نہیں آیا لیکن جیسے ہی میرے سامنے قطاروں میں ایک کپ کافی کے لئے کھڑے لوگوں کے ویڈیوز آنے شروع ہوئے تو مجھے یقین کرنا پڑا۔ واقعی لوگ ایک کپ کافی کے لئے لائن میں کھڑے تھے۔

اور وہ بھی کوئی معمولی کافی نہیں ہے بلکہ اس کی قیمت 500 پاکستانی روپوں سے زیادہ ہے۔ تو میری خوشی کی کوئی انتہاء کہ میرا ملک شاید بہت ترقی کر گیا۔ یہ ہم ہیں جو اپنے ملک کے بارے میں بدگمان ہیں ورنہ یہاں تو لوگ ایک کپ کافی کے لئے لائن میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اور وہ بھی کوئی عالمی برانڈ کی کافی کے لئے۔ لیکن میری یہ خوشی اس وقت دھری کی دھری رہ گئی جب وہ باپردہ عورتیں میرے آنکھوں کے سامنے آئی جو ایک آٹے کے تھیلے کے لئے ٹرک کے پیچھے بھاگ رہی تھیں۔

ابھی کل کی ہی تو بات ہے۔ جب ایک شخص نے بھوک سے تنگ آ کر اپنے بچوں کو اور خود زہر کھا کر ہمیشہ کے لئے بھوک سے خود کو آزاد کیا۔ اب میرے ذہن میں آنے لگا کے چند سو لوگوں کی خاطر میں کیسے کروڑوں لوگوں کے حال کا فیصلہ کرو۔ اور لوگوں کو یہ بتا دوں کہ ہمارے ملک نے وہ ریکارڈ قائم کیا جو دنیا کے بڑے اور طاقتور ممالک بھی نہ بنا سکے۔ لیکن خیر ایک بات ہے کہ کھانے کو معاملے میں واقعی ہمارا کوئی جواب نہیں۔ چاہے وہ اپنا ملک ہی کیوں ہو۔

اس ریکارڈ کی خبر جیسے ہی سوشل میڈیا پر پھیلی لوگ غصے سے بھڑک اٹھے اور یہ یاد کرانا شروع کیا کہ ایک طرف ملک دیوالیہ ہو رہا ہے۔ لوگوں کی خرید کی سکت ختم ہو چکی ہے۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے اشرافیہ ابھی بھی عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ ایک طرح سے ان لوگوں کا غصہ جائز بھی ہے اور کچھ سمجھ بھی آ رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف کچھ لوگ ان قطاروں میں لگے اشرافیہ کے حق میں بھی نظر آئے اور یہ دلیل دینے لگے کہ ان کی اپنی دولت ہے وہ جیسے چاہے خرچ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ہمیں ان پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں۔

مجھے ان لوگوں کی بات کی کوئی سمجھ نہیں آئی کہ یہ اپنی دلیل سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ پچھلے پچھتر سال سے تو یہ اشرافیہ اس ملک کو کھا رہے ہیں۔ لیکن آج جب غریب پر فاقوں کی نوبت آئی اسے دن میں بارہ بارہ گھنٹے کام کر کے بھی اپنا پیٹ نہیں پالا جا رہا۔ بازار میں کوئی چیز عام لوگوں کی خرید کے قابل نہیں رہی بس وہ صرف دور سے اس کا تماشہ کر رہا ہے۔

ایسی صورتحال میں اگر یہ لوگ ایک کپ کافی کے مزے لینے کے لئے لائن میں کھڑے ہوتے ہیں تو یہ اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ میرے خیال سے اس لائن میں کھڑے آدھے سے زیادہ لوگ ان غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر پل رہے ہونگے اُن کی عیاشی ان غریب عوام کے مرہون منت ہوگی۔ آج جب ان غریبوں پر مشکل وقت آیا تو تم یہ حرکتیں کرنے لگے ہو۔ آج جو اس ملک کے حالات ہیں اس میں ان غریبوں کی ایک فیصد بھی ذمہ داری نہیں ہے۔ مگر سو فیصد صرف یہ لوگ ہی پسے جا رہے ہیں۔

Check Also

Kya Aap Ki Job Mehfooz Hai?

By Qamar Naqeeb Khan