Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Ali Yaqubi
  4. Saneha e Babrra

Saneha e Babrra

سانحہ بابڑہ

بابڑہ قتل عام پختون قوم کی تاریخ کا وہ المناک باب ہے جو ظلم و ستم، جبر و استبداد اور بے رحمانہ ریاستی طاقت کے استعمال کا بدترین مظہر ہے۔ 12 اگست 1948ء کو خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں بابڑہ میں پیش آنے والا یہ واقعہ پاکستانی تاریخ کا ایسا واقعہ ہے جسے نہ صرف پختون قوم بلکہ تمام پاکستانیوں کے لیے ایک دردناک یادگار کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے اور اسے پختونوں کا کربلا بھی کہا جاتا ہے۔

بابڑہ قتل عام کی داستان قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی برسوں کی سیاسی کشیدگی اور حکومت کے جبر کی اس مہم کی کہانی ہے جس کا نشانہ پشتون قوم، خصوصاً خدائی خدمتگار تحریک، بنی۔ خدائی خدمتگار تحریک، جو خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی قیادت میں چلائی جانے والی عدم تشدد کی ایک عظیم تحریک تھی، برطانوی سامراج کے خلاف ایک موثر جدوجہد کا نشان بنی۔ تحریک کے اراکین، جنہیں سرخ پوش بھی کہا جاتا تھا، نے برطانوی راج کے خلاف پُرامن احتجاجات اور جدوجہد کی، جس کے باعث انہیں ہر جگہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد، جب نئی ریاستی حدود میں خدائی خدمتگار تحریک کی سیاسی حیثیت اور اس کے رہنماؤں کے خیالات نے مرکزیت اختیار کی، تو یہ تحریک نئی ریاست کے لیے ایک چیلنج بن گئی۔ خدائی خدمتگار تحریک کے رہنما، جنہوں نے بھارت کی آزادی اور برطانوی تسلط کے خاتمے کی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان کے قیام پر تحفظات رکھتے تھے۔ اس کے پیچھے ان کے کچھ سیاسی اور تاریخی وجوہات تھیں، جن میں سب سے اہم یہ تھی کہ وہ ایک ایسی ریاست کے قیام کے حق میں تھے جو تمام اقوام کے حقوق کا احترام کرتی ہو اور تمام طبقات کے لیے برابری کی ضمانت فراہم کرتی ہو۔ تاہم، جب یہ خواب بکھر گیا اور پاکستان کی ریاست نے اپنے اندرونی استحکام کے لیے ہر اس تحریک کو ریاست مخالف قرار دیا جو اس کے مفادات سے متصادم تھی، تو خدائی خدمتگار تحریک کو بھی ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔

1948ء میں، پاکستان کی مرکزی حکومت، جس کی سربراہی لیاقت علی خان کر رہے تھے، نے خدائی خدمتگار تحریک پر پابندی عائد کردی۔ اس تحریک کے اراکین پر غداری اور بھارت کے ساتھ ملی بھگت کے سنگین الزامات لگائے گئے، اور ان کے خلاف ریاستی سطح پر گرفتاریوں اور مظالم کا سلسلہ شروع ہوا۔ خدائی خدمتگار تحریک کی قیادت کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، ان کے اجتماعات پر پابندیاں لگادی گئیں، اور ان کے اراکین کو ہر ممکن طریقے سے ریاستی طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی۔

اس جبر و استبداد کے ماحول میں، پختون قوم نے اپنے حقوق کی بحالی اور اپنے رہنماؤں کی رہائی کے لیے بغاوت کا راستہ اپنانے کی بجائے اپنے اصولوں کے مطابق پُرامن احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔ اس پُرامن جدوجہد کا نقطۂ عروج بابڑہ کے مقام پر ایک عظیم الشان مظاہرے کی صورت میں سامنے آیا۔ 12 اگست 1948ء کو، پختونوں نے اپنے گھروں سے نکل کر بابڑہ میں ایک پرامن اجتماع منعقد کیا، جس کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ خدائی خدمتگار تحریک کے خلاف جاری جبر کو روک دے اور ان کے رہنماؤں کو رہا کرے۔

یہ اجتماع پختون قوم کی غیرت، عزم اور ان کی اجتماعی طاقت کا اظہار تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں مرد، عورتیں، اور بچے اس مظاہرے میں شریک تھے۔ ان کے ہاتھوں میں کوئی ہتھیار نہیں تھے، ان کے دلوں میں کوئی دشمنی نہیں تھی۔ وہ صرف اپنے حقوق کی بحالی کے لیے پرامن طریقے سے آواز بلند کر رہے تھے۔

تاہم، حکومت نے اس پرامن مظاہرے کو اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ اس وقت کے صوبائی وزیر اعلیٰ عبدالقیوم خان کی قیادت میں صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس مظاہرے کو بزور طاقت منتشر کیا جائے۔ نیم فوجی دستے اور پولیس اہلکاروں کو حکم دیا گیا کہ وہ مظاہرین پر گولیاں چلائیں۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے، سیکورٹی فورسز نے بابڑہ کے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔

یہ فائرنگ نہ صرف بے دردی سے کی گئی بلکہ اس کا مقصد مظاہرین کو عبرت کا نشانہ بنانا تھا۔ اس خونریز کارروائی کے نتیجے میں سینکڑوں پختون جاں بحق ہوئے، جن کی تعداد مختلف ذرائع کے مطابق 600 سے 1200 کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ اس قتل عام نے نہ صرف پختونوں کے دلوں میں ایک ناقابل فراموش زخم چھوڑا بلکہ یہ واقعہ انسانی حقوق کی پامالی کا ایک بدترین مثال بھی بن گیا۔

بابڑہ قتل عام پختون قوم کے لیے ایک ایسا سانحہ تھا جسے وہ کبھی نہیں بھول سکتے۔ یہ دن ان کے لیے کربلا کی یادگار بن چکا ہے، جہاں ظلم و جبر کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے والوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اس واقعے نے نہ صرف پختونوں کو ان کے حقوق کی جدوجہد میں مزید پختہ کیا بلکہ یہ واقعہ پاکستانی تاریخ میں ریاستی جبر کی ایک بدترین مثال کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

بابڑہ قتل عام کے بعد، خدائی خدمتگار تحریک کی قیادت اور اس کے اراکین کو مزید جبر و استبداد کا سامنا کرنا پڑا۔ باچا خان اور دیگر رہنماؤں کو طویل عرصے تک جیلوں میں رکھا گیا، اور ان کے ساتھ شدید مظالم کیے گئے۔ لیکن اس سب کے باوجود، پختون قوم نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ بابڑہ کا یہ دن ان کے لیے ایک مثال بن گیا کہ حق کے لیے جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔

اس قتل عام کے زخم آج بھی ناسور بن کر رستے ہیں۔ یہ دن پختونوں کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اس واقعے کو انصاف کی طلبگار نگاہوں کے ساتھ آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بابڑہ قتل عام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ظلم و جبر کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے، اور حق کی جدوجہد کبھی نہ کبھی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔

About Asif Ali Yaqubi

Asif Ali Yaqubi hails from Swabi, an important district in Khyber Pakhtunkhwa. He is one of the emerging young columnists in Khyber Pakhtunkhwa. His columns are published in most of the province national newspapers.

Check Also

Kuch Bhi Paka Lo

By Umm e Ali Muhammad