Zehr Bhari Hawa
زہر بھری ہوا

صبح کے اخبار کے ساتھ جب کھڑکی کھولی تو منظر خواب ناک نہیں بلکہ خوف ناک تھا۔ سورج آسمان پر موجود تھا مگر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ہوا تھی مگر سانس لینا دشوار تھا۔ یہ دھند نہیں تھی، یہ دھواں تھا اور یہ دھواں کسی ایک فیکٹری یا کھیت سے نہیں، ہماری اجتماعی غفلت اور بےحسی سے اٹھ رہا تھا۔ یہ جو سموگ ہے، یہ محض ایک سائنسی اصطلاح نہیں بلکہ ہماری تہذیب کا چہرہ ہے، وہ چہرہ جس پر ترقی کی چمک کے نیچے غفلت کی موٹی گرد جمی ہوئی ہے۔ ہم نے فضا کو بوجھ سمجھ کر زہریلا کیا، درختوں کو کاٹ کر عمارتیں اگائیں زمین کو جلا کر آسمان کو دھواں دیا اور اب فطرت جواب دے رہی ہے۔ وہ انسانوں کی زبان میں نہیں، بلکہ دھند کے استعارے میں گفتگو کر رہی ہے۔
حکومت اعلانات کرتی ہے، اجلاس بلاتی ہے، مگر زمین پر کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ قانون موجود ہے مگر عمل ندارد۔ اینٹوں کے بھٹے اب بھی دھواں اگل رہے ہیں، گاڑیاں زہریلا ایندھن جلا رہی ہیں اور کھیتوں میں باقیات کو آگ لگانا اب بھی معمول ہے۔ سب کو اپنا جواز عزیز ہے۔ کسان کہتا ہے میرا نقصان ہے، فیکٹری والا کہتا ہے میرا کاروبار ہے، شہری کہتا ہے یہ تو موسم ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ سب ہماری مشترکہ نادانی کا نتیجہ ہے۔ عوام بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے حکمران۔ ہم ماسک پہن کر سیلفیاں تو لے سکتے ہیں مگر درخت لگانے کے لیے چند قدم نہیں چل سکتے۔ ہم حکومت پر تنقید کرتے ہیں مگر خود کچرا اپنے دروازے کے سامنے پھینکتے ہیں۔ ہم ترقی کے نعرے لگاتے ہیں مگر اس کی قیمت زمین اور فضا سے وصول کرتے ہیں۔ ہم نے آسائشوں کو ضرورت سمجھ لیا ہے اور ذمہ داریوں کو بوجھ۔
سموگ صرف سانسوں کا نہیں، سوچ کا بحران ہے۔ یہ ہمیں بتا رہی ہے کہ ہم نے زندگی کو آسان بنانے کے چکر میں زمین کو ناقابلِ تنفس بنا دیا ہے۔ ہماری معیشت کی رفتار جتنی تیز ہوئی، ہوا کی روانی اتنی سست پڑ گئی۔ ہم نے شور میں خوشی تلاش کی اور سکون کھو دیا۔ عمارتوں کی اونچائی ناپتے رہے مگر آسمان کی شفافیت بھلا بیٹھے۔
اگر اب بھی ہم نے خود کو نہ بدلا تو آنے والی نسلیں کتابوں میں پڑھیں گی کہ ایک زمانہ تھا جب سورج صاف دکھائی دیتا تھا اور لوگ کھلی ہوا میں سانس لیتے تھے۔ وہ ہم سے سوال کریں گی کہ جب تمہارے پاس علم بھی تھا ٹیکنالوجی بھی، قانون بھی، تو پھر تم نے اپنی ہی فضا کیوں زہر آلود کر دی؟ اور شاید ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ ہو۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ سموگ کوئی فطری آفت نہیں بلکہ انسانی غفلت کا نتیجہ ہے۔ درخت لگانا، صاف ایندھن اپنانا، پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دینا یہ سب نعرے نہیں بلکہ زندگی کی ضرورتیں ہیں۔ ہمیں اپنے شہروں کو صرف تعمیر نہیں بلکہ سانس لینے کے قابل رکھنا ہوگا۔ فطرت کے ساتھ ہمارا رشتہ یک طرفہ نہیں، وہ برداشت کرتی ہے، خبردار کرتی ہے اور آخرکار جواب دیتی ہے۔ یہ دھند اسی جواب کی پہلی قسط ہے۔ اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو اگلی بار شاید صرف دھند نہیں، اندھیرا اترے گا۔
ہوا زہر آلود ہے، مگر خاموشی اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔۔

