Wadon Ki Qabr Par Khara Pakistan
وعدوں کی قبر پر کھڑا پاکستان

جو ریاست عوام کے ووٹ سے جنم لیتی ہے، اگر وہی عوام بنیادی سہولتوں سے محروم رہیں، تو یہ ایک قومی بددیانتی کی علامت بن جاتی ہے۔ جنہیں نظام کی باگ ڈور سونپی جاتی ہے، اگر وہی اپنی ترجیحات میں عوام کو آخری درجے پر رکھیں، تو سوال صرف حکمرانوں سے نہیں، پوری اجتماعی دانش سے کیا جانا چاہیے۔ ہم نے فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، مگر حقیقت میں ایک ایسا معاشرہ کھڑا کر دیا گیا جہاں ناانصافی، مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی اور جہالت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
پاکستانی سیاست، عرصہ دراز سے، ایک چالبازانہ کھیل بنی ہوئی ہے، جہاں اصولوں کی جگہ مفادات اور وعدوں کی جگہ مصلحتوں نے لے لی ہے۔ سیاست دان، عوامی خدمت کے بجائے اقتدار کی رساکشی میں مصروف رہے اور جمہوریت کو محض ایک کھیل سمجھا گیا جس میں عوام صرف ووٹ ڈالنے کا آلہ ہیں، حصہ دار نہیں۔ یہی وہ زمین تھی جس پر تحریک انصاف کی عمارت کھڑی کی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف (PTI) نے 2018 کے انتخابات سے قبل عوام سے جو وعدے کیے تھے، وہ حکومتی اقدامات اور سیاسی بیانات کی صورت میں سامنے آئے، مگر ان وعدوں کی حقیقت کچھ اور ہی نکلی۔ "نیا پاکستان" کا خواب، جو عوام کے دلوں میں امید کی کرن بن کر چمکا تھا، اس میں عوامی فلاح کے وعدے بڑے زور و شور سے کیے گئے تھے۔ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں کرپشن کا مکمل خاتمہ کریں گے، روزگار کے مواقع پیدا کریں گے، تعلیم اور صحت کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں لائیں گے اور عوام کو سستا انصاف فراہم کریں گے۔ مگر جب حقیقت کا سامنا ہوا تو عوام نے یہ محسوس کیا کہ یہ سب محض سیاسی نعرے تھے۔
اس کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ انہی چہروں کا راج قائم ہوگیا جنہوں نے ماضی میں بھی ملک کو سیاسی، معاشی اور انتظامی بحرانوں سے دوچار کیا تھا۔ مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت نے بھی ان ناکامیوں سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ عوامی فلاح و بہبود کے وعدے ایک مرتبہ پھر نعرہ بن کر رہ گئے۔ مہنگائی کی شدت میں کمی لانے کے بجائے حکومتی ترجیحات اب بھی صرف اقتدار کے تحفظ اور سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے میں مرکوز ہیں۔ تعلیم، صحت، انصاف اور روزگار جیسے بنیادی مسائل ایک مرتبہ پھر حاشیے پر چلے گئے اور عوام، جو پہلے ہی مایوسی کے اندھیروں میں گم تھے، اب مزید بدگمانیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے عوامی مسائل محض وسائل کی کمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ہماری اجتماعی سوچ، ناقص پالیسی سازی، کرپشن، بدانتظامی اور ترجیحات کے بگاڑ کا نتیجہ ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ اقتدار کو اختیار سمجھا، خدمت کو ثانوی حیثیت دی اور عوامی بہبود کو نعرہ بنا کر چھوڑ دیا۔ اسی باعث آج پاکستان کا عام شہری صحت، تعلیم، روزگار، انصاف اور بنیادی سہولیات کے لیے ترستا نظر آتا ہے۔
علم ایک ایسا ہتھیار ہے جو قوموں کو زندہ اور خوددار بناتا ہے، لیکن پاکستان میں تعلیم کو وہ اہمیت کبھی نہ دی گئی جو دی جانی چاہیے تھی۔ تعلیمی بجٹ کا تناسب آج بھی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں شرمناک حد تک کم ہے۔ دیہی علاقوں میں اسکولوں کی عمارتیں تو ہیں مگر اساتذہ غائب اور شہروں میں معیارِ تعلیم کمزور ہو چکا ہے۔ نجی تعلیمی ادارے طبقاتی تفریق کو بڑھا رہے ہیں، جہاں صرف وہی طلبہ جا سکتے ہیں جن کے والدین فیسوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ جسمانی صحت انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، لیکن سرکاری اسپتالوں کی حالت زار دیکھی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ریاست نے اس شعبے کو خیرات کے برابر رکھا ہے۔ دیہی علاقوں میں بنیادی مراکز صحت یا تو بند ہیں یا عملے سے محروم۔ شہری اسپتالوں میں مریضوں کا ہجوم، مہنگی دوائیں، ناکارہ مشینری، بدتمیز عملہ اور سہولیات کا فقدان ایک مستقل اذیت کا سبب ہے۔
پاکستانی عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ آٹا، چینی، دالیں، سبزیاں، تیل اور گیس عوام کی پہنچ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک عام سرکاری ملازم یا مزدور طبقہ مہینے کے وسط میں ہی خالی جیب ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف، لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان روزگار کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
کسی مہذب معاشرے کی شناخت اس کے عدالتی نظام سے ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں عدل و انصاف کا حصول غریب عوام کے لیے ایک نہ ختم ہونے والا خواب بن چکا ہے۔ عدالتوں میں دہائیاں گزر جاتی ہیں مگر فیصلے نہیں ہوتے۔ پولیس اصلاحات کا فقدان، سیاسی مداخلت اور طاقتور طبقے کی بالا دستی نے انصاف کو امیروں کی لونڈی بنا دیا ہے۔ پینے کے صاف پانی کی قلت، گیس کی بندش، بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور خستہ حال سڑکیں ایک شہری کی روزمرہ کی زندگی کو عذاب بنا چکی ہیں۔ کوڑے کے ڈھیر، کھلے گٹر اور تعفن زدہ ماحول بیماریوں کا گڑھ بن چکے ہیں۔ ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئے اگر کوئی حکومت یہ دعویٰ کرے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں، تو اسے دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ان مسائل کا حل محض شورش، احتجاج یا نعرہ بازی نہیں، بلکہ ایک ایسی سنجیدہ قومی خوداحتسابی میں پنہاں ہے جو ریاستی ترجیحات کو ازسرنو ترتیب دے۔ سب سے پہلے ریاست کو اپنا مقصد متعین کرنا ہوگا۔ یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم ایک ایسی ریاست چاہتے ہیں جو صرف چند خاندانوں کے اقتدار کے گرد گھومتی رہے، یا ایک ایسی فلاحی مملکت جس میں ہر شہری کو عزت، انصاف، تعلیم اور روزگار میسر ہو۔ جب تک ریاست کا وژن واضح اور عوامی مفاد پر مبنی نہیں ہوگا، ہر پالیسی، ہر منصوبہ اور ہر دعویٰ کھوکھلا ہی ثابت ہوگا۔
اس خواب کی تعبیر کا پہلا قدم تعلیم سے جڑا ہے۔ پاکستان کو محض شرحِ خواندگی کے اعداد و شمار سے آگے بڑھ کر ایک فکری انقلاب کی ضرورت ہے۔ ایسا تعلیمی نظام تشکیل دینا ہوگا جو محض امتحانات اور نمبروں پر نہیں، بلکہ سوچ، تحقیق، تخلیق اور اخلاقیات پر استوار ہو۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو اس قدر مضبوط کیا جائے کہ والدین اپنے بچوں کو ان میں پڑھانے پر فخر محسوس کریں، نہ کہ مجبوری۔ اساتذہ کو محض تنخواہ دار ملازم نہیں بلکہ فکری رہنما سمجھا جائے اور ان کی تربیت اور مقام کو قومی وقار سے جوڑا جائے۔
لیکن تعلیم تنہا کافی نہیں، اس شعور کو عملی حیثیت دلانے کے لیے مقامی حکومتوں کا فعال ہونا ناگزیر ہے۔ ایک ایسا نظام جہاں گلی، محلے اور دیہات کی سطح پر فیصلے وہی کریں جو ان مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ مرکز سے جاری ہونے والے احکامات عوامی نبض سے کٹے رہتے ہیں۔ اگر بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ دے کر بااختیار کیا جائے، تو شہری اپنی زندگی کے بنیادی مسائل کا حل خود اپنے ہاتھ میں پا سکتے ہیں۔
انصاف کا حصول کسی بھی مہذب ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے اور جب وہی انصاف طبقاتی ہو جائے تو ریاست کا وجود بھی سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ عدلیہ اور پولیس کو سیاسی مداخلت سے مکمل آزادی دی جائے، لیکن ساتھ ہی ایک شفاف اور مضبوط احتسابی نظام کے تحت ان پر نگرانی بھی رکھی جائے۔ عدالتوں میں مقدمات برسوں کے بجائے مہینوں میں فیصل ہوں اور پولیس کا ادارہ عوام کے تحفظ کی علامت بنے، نہ کہ خوف اور استحصال کا مرکز۔
معاشی اصلاحات میں سب سے بڑا قدم دیہی اور صنعتی معیشت کے امتزاج کو فروغ دینا ہوگا۔ کسان کو پانی، بیج، کھاد اور منڈی تک رسائی دی جائے اور صنعتکار کو سستا قرض، توانائی اور سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔ برآمدات بڑھانے، چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینے اور مقامی پیداوار کو اولیت دینے سے معیشت میں استحکام ممکن ہے۔ لیکن اس سب سے پہلے، کرپشن کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔
احتساب کو کسی ایک جماعت یا گروہ کی تلوار نہ بنایا جائے۔ تمام اداروں کو مکمل آزادی کے ساتھ ساتھ، عدالتی نگرانی کے دائرے میں لایا جائے تاکہ یہ عمل نہ صرف شفاف ہو، بلکہ نظر بھی آئے کہ انصاف برابر کا ہو رہا ہے۔ کرپٹ عناصر کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، اسے قانون کے کٹہرے میں لانا ہی حقیقی تبدیلی کی دلیل ہوگی۔
ریاستی شعور کی تعمیر میں میڈیا، دانشور، اساتذہ اور نوجوانوں کا کردار بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک میڈیا نعرے، سنسنی اور مفاد پرستی سے نکل کر فکری رہنمائی کا فریضہ انجام نہیں دے گا، قوم کا شعور اسی سطحی پن کا شکار رہے گا۔ تعلیمی اداروں کو تحقیق اور قومی مسائل کے حل کی تجربہ گاہ بنانا ہوگا اور نوجوانوں کو مایوسی، بیروزگاری اور سیاسی استعمال سے نکال کر ایک فعال، باشعور اور خوددار شہری بنانا ہوگا۔
یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر ہم صرف ماضی کی کوتاہیوں کا نوحہ نہیں پڑھیں گے، بلکہ ایک ایسا مستقبل تراشیں گے جس میں خواب، وعدے اور حقیقت ایک ہی صفحے پر ملیں گے۔ قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو اپنے زخموں پر مرہم رکھنا بھی جانتی ہیں اور زخم لگانے والوں کا محاسبہ بھی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی اجتماعی دانش کو بیدار کریں اور پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست بنانے کی جانب بڑھیں، ورنہ تاریخ کے اوراق ہمیں بھی انہی صفحوں میں دفن کر دیں گے جہاں ناکام اقوام کی داستانیں لکھی جاتی ہیں۔

