Taleem Baraye Farokht
تعلیم برائے فروخت

کبھی اسکول انسان بناتے تھے، اب صارف۔ استاد کبھی قوم کا معمار تھا، اب اسٹاف ممبر۔ تعلیم کبھی روشنی تھی، اب وہ بجلی کے بل میں شامل ایک اضافی چارج بن گئی ہے۔ یہ پرائیویٹ اسکول نہیں، فیس کے مندر ہیں، جہاں علم کی جگہ پیکیج بیچے جاتے ہیں۔ باہر بڑے بڑے بینرز، اندر چھوٹے چھوٹے دماغ۔ ایک طرف دیوار پر لکھا ہوتا ہے "Education is Light" اور دوسری طرف اس بچے کا فارم رکھا ہوتا ہے جس کی فیس وقت پر نہ دینے پر گیٹ بند کر دیا گیا۔
یہ وہی اسکول ہیں جہاں استاد کو عزت نہیں، حاضری کا خوف ملتا ہے، جہاں بچے رٹے کے غلام ہیں اور والدین قسطوں کے، جہاں کتابوں میں خواب لکھے جاتے ہیں اور ہر خواب کے ساتھ رسید منسلک ہوتی ہے۔ ہر محلے میں ایک نیا اسکول اُگ آتا ہے، جیسے قوم نہیں کاروبار پروان چڑھ رہا ہو۔ نام ایسے جیسے آکسفورڈ کا کوئی نیا چاند اتر آیا ہو، Beacon، City، Roots، Allied، Future، Dream، مگر اندر وہی پرانا اندھیرا، جہاں علم کی بجائے نقل کی ٹارچ جلتی ہے۔
اساتذہ کا حال بھی کسی المیے سے کم نہیں۔ وہ روز بچوں کو اچھی زندگی کا سبق پڑھاتے ہیں اور خود دو اسکولوں کی نوکریاں کرکے گزارا کرتے ہیں۔ ان کی محنت مالکان کے منافع میں شمار ہوتی ہے اور ان کی تھکن والدین کے اعتماد میں چھپ جاتی ہے۔ بورڈ امتحانات کا حال کسی ڈرامے سے کم نہیں۔ سوال پیپر سے زیادہ گائیڈ مشہور اور قابلیت سے زیادہ ذرائع معتبر۔ امتحان کی صبح بچوں سے زیادہ والدین پریشان، کہ کہیں نمبر کم نہ آئیں ورنہ امیج خراب ہو جائے گا۔ تعلیم یہاں دم توڑتی ہے مگر ہم ہر سال نتائج کے پوسٹر پر "مبارک ہو" لکھ کر فاتحہ پڑھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے یہ سب محکمہ تعلیم کے تحت چلتا ہے، مگر دراصل یہ سب محکمہ سرمایہ کی شاخیں ہیں۔ یہ اسکول، کالج، اکیڈمیاں سب اس عظیم منڈی کا حصہ ہیں جہاں علم تولہ جاتا ہے اور کردار بیچا جاتا ہے، جہاں نصاب میں ضمیر شامل نہیں کیونکہ اس کی فروخت ممکن نہیں۔ یہ ادارے قوم کے معمار نہیں، قوم کے خریدار ہیں۔ یہ بچوں کو نہیں پڑھاتے، ان کے خوابوں کو قسطوں میں بیچتے ہیں۔ یہ نظام استاد سے عزت چھینتا ہے، بچے سے بچپن اور والدین سے وقار۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں اگر علامہ اقبال آج کے کسی پرائیویٹ اسکول میں پڑھانے آ جائیں تو شاید انہیں بھی پرفارمنس رپورٹ میں کم گریڈ ملے، کیونکہ وہ بچے کو سوچنا سکھائیں گے، نمبر نہیں اور یہ سب تماشہ ہم خاموشی سے دیکھ رہے ہیں، کچھ مجبوری سے، کچھ عادت سے۔ ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو اپنے بچوں کے دماغ بھرنے کے لیے جیب خالی کرنے کو ترقی سمجھتی ہے۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ اسکول قوم نہیں بنا رہے، قوم بیچ رہے ہیں، یہ علم نہیں دے رہے، نفع کما رہے ہیں اور جس دن فیس چالان کو ایمان سمجھ لیا جائے، اس دن ضمیر کا جنازہ پڑھ لینا چاہیے۔

