Siasat Ki Mandi, Awam Ki Barbadi
سیاست کی منڈی، عوام کی بربادی

سیاست، سیاست دان، مشیر، وزیر اور معاونین پر تبصرے، تجزیے، وضاحتیں، خیالات، آراء، تنقید، تحریریں، داستانیں اور گفتگو کے علاوہ بھی معاشرے میں بے شمار مسائل، مشکلات، مصائب، دشواریاں اور پیچیدگیاں موجود ہیں، لیکن میڈیا کی توجہ ان پر محض آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ نظر گل نظر برسوں سے یہ سب دیکھ کر حیران، پریشان، سرگرداں اور بےقرار تھا۔ وہ سمجھنے کی کوشش کرتا، سوال اٹھاتا، لیکن جوابات ہمیشہ تشنہ رہتے۔ سیاست میں ہونے والی چالاکیوں، وعدوں اور بیانات کے درمیان اسے کچھ بھی واضح نظر نہیں آتا تھا۔
جب بھی وہ سوال کرتا کہ یہ سب کیا ہے؟ تو جواب سننے کے لیے ترس جاتا اور آخرکار مایوس ہو کر رہ جاتا۔ وہ سوچتا کہ عوامی مسائل پر کوئی بات کیوں نہیں کرتا؟ میڈیا ہمیشہ انہی مخصوص چہروں کے گرد کیوں گھومتا ہے؟ غربت، بے روزگاری، صحت، تعلیم اور انصاف جیسے بنیادی مسائل پس منظر میں کیوں چلے جاتے ہیں؟ کیا یہ مسائل واقعی اتنے غیر اہم ہیں یا پھر انہیں غیر اہم بنایا جا رہا ہے؟
وہ دیکھ رہا تھا کہ معاشرے میں ہر طرف ایک بے حسی چھائی ہوئی ہے۔ عوامی رائے کو موڑنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے جاتے ہیں، کبھی جذباتی تقاریر، کبھی دلفریب وعدے اور کبھی چمکدار خواب۔ مگر حقیقت ہمیشہ وہی رہتی ہے، عام آدمی کے حالات جوں کے توں، زندگی کی مشکلات ویسی کی ویسی اور امیدیں ہمیشہ ادھوری۔۔
ایک دن، نظر گل نظر کی ملاقات ایک سمجھدار اور تجربہ کار شخص سے ہوئی۔ اس نے نظر گل نظر کی بے چینی کو محسوس کیا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
اس نے کہا، "نظر صاحب! جب آپ جوان تھے، تب شادی بیاہ کی تقریبات میں طوائف کو ناچنے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ لوگ اسے پیسے دیتے اور وہ میدان میں رقص کرتی۔ جو شخص زیادہ پیسے نچھاور کرتا، وہ اس کے سامنے زیادہ محنت اور شائستگی سے ناچتی، لیکن جیسے ہی کوئی دوسرا شخص زیادہ پیسے پھینکتا، وہ فوراً اس کی طرف متوجہ ہو جاتی۔
یہ سن کر نظر گل نظر کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے حیرانی ابھری، پھر اچانک جیسے کوئی گہرا راز سمجھ میں آ گیا ہو، وہ بولا، "بس بس، میں سمجھ گیا"۔۔
پیسہ، طاقت اور مفادات یہی وہ عناصر ہیں جو آج ہر شعبے میں فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں۔ جس طرح طوائف اپنی توجہ اور رقص کا مرکز بدلتی ہے، اسی طرح سیاست میں بھی سب کچھ مفادات کی بنیاد پر گھومتا ہے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی توجہ بھی انہی چہروں پر رہتی ہے جو زیادہ طاقتور اور بااثر ہوتے ہیں۔ عوامی مسائل کی جگہ سنسنی خیز خبریں لے لیتی ہیں اور یوں حقیقت دھندلا دی جاتی ہے۔
بہت پہلے ایک استادِ محترم نے بتایا تھا کہ جب کوئی اخبار یا ٹی وی چینل اشتہارات لینا شروع کرتا ہے تو وہ ادارہ اشتہارات دینے والوں کی انگلیوں پر چلنے لگتا ہے۔ وہاں عوام کو صرف سیاست دانوں، بیوروکریسی اور فوج کے قصیدے، داستانیں، تبصرے اور تجزیے اداریوں اور ٹی وی ٹاک شوز کی صورت میں ملتے ہیں۔ آج کل تو حالات اور بھی بدل گئے ہیں پورے کے پورے صفحات اشتہارات کے لیے وقف کر دیے جاتے ہیں۔ کیا عوام اخبار سیاست دانوں کی شکلیں دیکھنے کے لیے پڑھتی ہے؟
تجزیے اور تبصرے موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ہوا حکومت کے حق میں ہوتی ہے، تو کبھی اپوزیشن کے۔ بیچاری عوام؟ وہ روزانہ ٹی وی اور اخبار اس امید پر دیکھتی ہے کہ شاید آج کوئی اچھی خبر ملے، مگر خبریں وہی پرانی۔۔

