Roshni Ka Andesha
روشنی کا اندیشہ

کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ سب کچھ واقعی ٹھیک ہو جائے؟ کیا کبھی وہ دن آئے گا جب چیزیں اپنی اصل پہچان کے ساتھ اپنی اصل جگہ پر ہوں؟ جہاں سچ کو چھپانے کے بجائے سراہا جائے، جھوٹ کو چالاکی نہ سمجھا جائے اور ہر شخص صرف اپنی ذمے داری نبھائے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ دیکھیں جہاں قانون سب کے لیے ہو، انصاف کے لیے دروازے کھلے ہوں اور لوگ اپنے فائدے کے لیے نظام کو بگاڑنے کے بجائے اسے بہتر بنانے کی فکر کریں؟
اگر لوگ گوشت نہ کھائیں تو قصائی خود کیا چبائیں؟ اگر معاشرے امن کا گہوارہ بن جائیں تو جرگے کے مشران اور رازی نامہ کے ماہر کس کے لیے بیٹھک لگائیں؟ اگر زیادہ بچے پیدا نہ ہوں تو پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان کیا کریں گے؟ اگر ہر طالب علم سائنسدان، انجینئر یا مفکر بن جائے تو بیرونِ ملک واش روم کون صاف کرے؟
اگر ہر کوئی محنتی ہو جائے تو پیشہ ور چور اور پنکچر لگانے والے کہاں سے آئیں گے؟ اگر سرکاری افسران رشوت لینا چھوڑ دیں تو نااہل افراد کی تعیناتی کیسے ہوگی؟ اگر اخبارات اشتہارات لینا بند کر دیں تو مالکان اور صحافی کیا کھائیں گے؟ اگر حکومت میڈیا کو آزادی دے دے تو سرکاری کرپشن کون چھپائے گا؟
اگر سیاست دان واقعی عوام کی خدمت کرنے لگیں تو ان کے محلات اور پلازے کس جادو سے بنیں گے؟ اگر بیماریاں ختم ہو جائیں تو پرائیویٹ اسپتالوں کا پانچ ستارہ کاروبار کہاں جائے گا؟ اگر نقل کا خاتمہ ہو جائے تو طلبا ہزاروں میں نمبر کیسے لائیں گے؟
اگر ہر نوکری میرٹ پر دی جانے لگے تو سفارش کا نظام ختم ہو جائے گا اور بہت سے "قابل لوگ" سڑک پر آ جائیں گے۔ اگر ہر مسجد کے امام صرف دین سکھائیں تو فرقہ واریت کی دکان بند ہو جائے گی۔ اگر تھانے دار ظلم نہ کرے تو سفارش والے کس کے در پر جائیں گے؟
اگر ہر شخص سچ بولنے لگے تو عدالتوں میں کیسز کی بھرمار ختم ہو جائے گی۔ اگر سیاست دان وعدے پورے کریں تو انتخابی مہموں میں شور کون مچائے گا؟ اگر مولوی سیاست سے الگ ہو جائیں تو کیا کریں گے؟
اگر اساتذہ دیانت داری سے پڑھائیں تو ٹیوشن سینٹرز کا دھندہ بیٹھ جائے گا۔ اگر والدین بچوں کو وقت دینے لگیں تو سوشل میڈیا کے کارٹون چینلز کون دیکھے گا؟
اگر نکاح آسان ہو جائے تو شادی ہال، میک آپ آرٹسٹ اور جہیز کے بیوپاری کہاں جائیں گے؟ اگر سب لوگ ٹیکس دینے لگیں تو ایف بی آر کے چھاپے کس کے گھروں پر پڑیں گے؟ اگر بجلی چوری بند ہو جائے تو لوڈشیڈنگ کا بہانہ کیا ہوگا؟
ہر شخص محبت پھیلائے تو نفرت کا کاروبار بند ہو جائے گا۔ اگر ٹریفک قوانین کی پابندی کی جائے تو وارڈن کو غصہ کس پر آئے گا؟
اگر لوگ موبائل سے نظریں ہٹائیں تو ایک دوسرے سے آنکھیں مل سکتی ہیں، مگر اس سے تو تنہائی بیچنے والے دیوالیہ ہو جائیں گے۔
اگر عدالتیں بروقت انصاف دینے لگیں تو وکیلوں کی فیسیں گھٹ جائیں گی۔
اگر ہر شہری اپنی ذمہ داری نبھائے تو حکومت پر الزامات لگانے والے بے روزگار ہو جائیں گے۔
اگر نوجوان فلسفہ، ادب اور اخلاقیات پڑھنے لگیں تو "یوٹیوبر انفلوئنسر" اور لطیفہ باز کہاں جائیں گے؟
اگر بچوں کو انسان بننے کی تربیت دینے لگیں تو وہ بڑے ہو کر غلامی کو اپنی تقدیر کیوں مانیں گے؟
اگر ہر مریض کو اسپتال میں بروقت علاج ملنے لگے تو نجی اسپتالوں کی فیسیں کون دے گا؟
اگر افسر کرسی کو خدمت کا ذریعہ بنائیں تو پروٹوکول کا نظام ختم ہو جائے گا۔
اگر قابلیت کو ذات یا زبان سے نہ تولا جائے تو اقلیتیں بھی آگے آئیں گی اور اگر وہ ترقی کر گئیں تو اکثریت کا غرور کس بنیاد پر قائم رہے گا؟
اگر شہروں میں صفائی ہو تو صرف بلدیاتی انتخابات کے دنوں میں جھاڑو اٹھانے والے کون ہوں گے؟
اگر طلبا خود کتابیں پڑھنے لگیں تو "جلدی کامیابی کے نوٹس" بیچنے والے کیا کریں گے؟
اگر فنکار سچ بولنے لگیں تو سٹیج پر بے مقصد رقص کون دیکھے گا؟
اگر یوٹیوبرز صرف مثبت مواد بنائیں تو تبصروں میں گالیاں دینے والے کہاں جائیں گے؟
اگر عدالتیں بااثر افراد کو سزا دینے لگیں تو این آر او کا خواب کون دیکھے گا؟
اگر انتخابات شفاف ہو جائیں تو ہارنے والے دھاندلی کا نعرہ کس جواز سے لگائیں گے؟
اگر ہر قوم پرست انسانیت کی بات کرے تو نفرت کا سودا کون کرے گا؟
اور اگر ہر شہری اپنا فرض ایمانداری سے نبھائے تو "یہ ملک نہیں بن سکتا" جیسے بیانیے کا کیا ہوگا؟
جب بگاڑ کو معمول سمجھ لیا جائے تو برائی پہچانی نہیں جاتی۔ جن خرابیوں کو ختم ہونا تھا، وہی نظام کا حصہ بن گئیں۔
فائدہ انہی سے جُڑ گیا، اس لیے اصلاح سے خوف پیدا ہوا۔ آئینے سے گریز بڑھا اور بہتری پر شک غالب آ گیا۔
مسائل کا حل کم، چرچا زیادہ مطلوب ہوتا ہے۔ شور، تنقید اور بیانیے تو جاری رہتے ہیں، مگر عمل کے وقت خاموشی چھا جاتی ہے۔
شاید اسی لیے کچھ معاشروں میں سب کچھ ٹھیک ہو جانا، سب سے بڑا اندیشہ بن جاتا ہے۔
معاشرے کی فکری اور اخلاقی بنیادیں اب اس مقام پر آ چکی ہیں جہاں بدنظمی، بدعنوانی اور دوہرے معیارات کو نہ صرف قبول کیا جا چکا ہے بلکہ ان سے چالاکی سے فائدہ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
سچ، انصاف، دیانت اور قانون جیسے الفاظ، جو کسی زمانے میں منزل کا نشان تھے، اب صرف تقریروں اور بیانات کے سجاؤ بن کر رہ گئے ہیں۔
اصول و ضوابط کی باتیں دوسروں کے لیے چھوڑی جا چکی ہیں اور موقع پرستی کو عقلمندی کا نام دے دیا گیا ہے۔
مظلومیت کے بیانیے سے بھرے اس ماحول میں اکثر شکوے سنائی دیتے ہیں کہ نظام خراب ہے، ادارے ناکام ہیں اور انصاف کہیں گم ہوگیا ہے۔
مگر ان آہوں کے بیچ ایک سوال دب جاتا ہے۔۔ اگر واقعی سب کچھ درست ہو جائے، تو ان "سہولتوں" کا کیا بنے گا جن پر روزمرہ کا سکون قائم ہے؟
کیا اصول کی حکومت وہ گنجائش دے گی جہاں استحقاق کے بغیر فائدہ حاصل کیا جا سکے؟
کیا صاف نظام میں وہ راستے بچیں گے جو پیچھے کے دروازے سے کامیابی کی گارنٹی دیتے ہیں؟
شاید یہی وہ دھند ہے جو اصلاح کی ہر کرن کو نگل لیتی ہے۔
تاریخ کا فیصلہ یہی رہا ہے کہ جن اقوام نے اپنے آئینے سے نظریں چرائیں، وقت نے انھیں آئینہ دکھانا چھوڑ دیا۔
جنہوں نے اپنی تباہی کے اسباب کو صرف دوسروں کے کھاتے میں ڈال دیا، وہ صرف شور مچاتے رہے، مگر قدم نہ اٹھا سکے۔
خوابوں کی تعبیر کے لیے پہلے آنکھوں کو سچ دیکھنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے اور جو آنکھیں صرف دوسروں کے عیب دیکھنے کی عادی ہوں، وہ اندھیرے سے نہیں، روشنی سے خائف ہو جاتی ہیں۔
یہی اصل خطرہ ہے: کہیں ایسا نہ ہو کہ روشنی دستک دے اور دروازے بند پائے۔

