Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Ali Durrani
  4. Qaum Kahan Hai?

Qaum Kahan Hai?

قوم کہاں ہے؟

ایک قوم کی اصل طاقت اس کے تعلیمی، فکری اور تہذیبی ڈھانچے میں پوشیدہ ہوتی ہے، نہ کہ صرف وسائل اور جغرافیے میں۔ جب کوئی قوم تعلیم کو صرف روزگار کا ذریعہ بنانے کے بجائے فکری آزادی، سوال اٹھانے اور تخلیق کرنے کی بنیاد بنا دے، جب استاد کو ایک فکری رہنما اور دانشور کو رہنمائے قوم کا مقام دے، جب سائنسی سوچ، فلسفیانہ تجزیہ اور ثقافتی ورثہ معاشرتی سانچے میں جذب ہو جائے، تب وہ قوم محض ایک آبادی نہیں بلکہ ایک زندہ شعور بن جاتی ہے۔

پاکستان جیسے ریاستی ڈھانچے میں جہاں مختلف قومیتیں اپنے اپنے تاریخی، لسانی اور تہذیبی شعور کے ساتھ موجود ہیں، وہاں ریاستی وحدت صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام اکائیوں کو مساوی حیثیت دی جائے۔ قومی یکجہتی نعروں سے نہیں بلکہ مساوات، شناخت کے احترام اور ثقافتی نمائندگی سے حاصل ہوتی ہے۔ جب ایک بلوچ، پختون، سندھی یا سرائیکی کو یہ اعتماد ہو کہ اس کی زبان نصاب کا حصہ ہے، اس کی ثقافت کو ریاستی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے دوسرے درجے کا شہری نہیں سمجھا جاتا، تب قومی وحدت حقیقت بن سکتی ہے۔

لیکن جب تعلیمی ادارے صرف امتحان پاس کرنے کی مشینیں بن جائیں، جب استاد سماجی دباؤ اور پیشہ ورانہ بے توقیری کا شکار ہو اور جب دانشور کو غدار اور سائنسدان کو غیر ضروری سمجھا جائے، تو فکری زوال جنم لیتا ہے۔ پاکستان میں یہی منظر سامنے ہے نجی تعلیمی ادارے علم کے مراکز کے بجائے "امتحانی کارخانے" بن چکے ہیں، جہاں طالبعلم حافظ تو بنتے ہیں، مفکر نہیں۔

وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم بھی قوم کی کمزوری کا سبب بنتی ہے۔ ریاستی ادارے، بیوروکریسی اور مفاد پرست طبقات قومی وسائل پر قابض ہو کر انہیں مخصوص گروہوں کے لیے مختص کرتے ہیں، جبکہ اصل وارث عوام تماشائی بنے رہتے ہیں۔ زمین، پانی، معدنیات سب کچھ موجود ہے، مگر ان تک رسائی ایک طبقے تک محدود ہے۔

یہ سوال پھر شدت اختیار کرتا ہے کیا واقعی ایک قوم موجود ہے یا یہ مختلف قوموں کا مجموعہ ہے؟ ہر قوم اپنی زبان، تہذیب، تاریخ اور شناخت رکھتی ہے۔ اگر ان شناختوں کو دبایا جائے، زبانوں کو ختم کیا جائے اور ثقافتوں کو دیہی، دقیانوسی یا غیر مہذب قرار دے کر کنارے لگا دیا جائے، تو قومی تعمیر ایک خواب ہی رہ جاتی ہے۔

ایک فکری، تعلیمی اور ثقافتی پالیسی وہ بنیاد ہے جس پر ایک زندہ قوم کھڑی ہوتی ہے۔ ایسی پالیسی جہاں استاد کو کلرک نہیں، قوم کا معمار سمجھا جائے، جہاں سائنس اور فلسفہ نصاب کا حصہ ہوں، جہاں سوچ جرم نہ ہو بلکہ تخلیق کا پہلا قدم ہو۔

قومیں قربانی سے بنتی ہیں، وسائل سے نہیں۔ تاریخ، تہذیب، نظریہ اور علم وہ چراغ ہیں جو اندھیرے میں راہ دکھاتے ہیں۔ جب تک ان چراغوں کو بجھنے سے بچایا نہ جائے، شناخت، وحدت اور شعور کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس ریاست میں سوال پوچھنا گستاخی، اختلاف کرنا غداری اور نئی سوچ پیدا کرنا خطرہ سمجھا جائے، وہاں قوم نہیں بنتی ہجوم بنتے ہیں اور وہ بھی منتشر۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali