Ishtehar, Iqtidar Aur Aina
اشتہار، اقتدار اور آئینہ

مملکتِ خداداد پاکستان میں جو چیزیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں، ان میں حکومتیں، وزیروں کے وعدے اور پارٹیوں کے نعرے تو شامل ہیں، مگر ایک چیز ہے جو ہر دور میں اپنی پوری شان و شوکت سے قائم رہتی ہے وہ ہے "درباری مزاج"۔ بادشاہ بدل جاتا ہے، مگر دربار کا آہنگ وہی رہتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے جو کل تک اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھ کر عوامی مسائل کا ماتم کرتے تھے، آج وہی چہرے حکومتی پروٹوکول کے حصار میں اشرافیہ کی زبان بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے گلدستوں میں لپٹی خوشامد ہوا کرتی تھی، آج اشتہارات کی زریں چادر میں لپٹی تشہیری مہمات ہیں۔
اب حکمرانی صرف فائلوں میں یا کابینہ کے اجلاس میں نہیں، کیمرے کے سامنے ہوتی ہے۔ وزیر کا کارنامہ اب کوئی اسکول، سڑک یا اسپتال بنانا نہیں بلکہ اس کی تختی لگانا ہے۔ ہر دن ایک نئی تختی، ہر ہفتے ایک نئی افتتاحی تقریب، ہر مہینے ایک رنگین اشتہار گویا ریاست اب پبلسٹی ایجنسی بن چکی ہے۔ کام ہو یا نہ ہو، تصویر ضرور ہونی چاہیے اور تصویر ایسی کہ لگے جیسے دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ عوام کی امیدیں، خواب، مسائل سب پس منظر میں چلے گئے ہیں اور پیش منظر میں صرف ایک "خوشنما حقیقت" ہے: فوٹو سیشن!
لیکن سوال یہ ہے کہ اس تماشے کو دوام کون دیتا ہے؟ وہ ادارے جو کل تک ریاست کے ضمیر سمجھے جاتے تھے، آج خود بے ضمیر ہو چکے ہیں۔ اخبارات، جو کبھی عوام کی رہنمائی کیا کرتے تھے، آج اشتہارات کی چکاچوند میں اپنے سچ تک بیچ چکے ہیں۔ صفحۂ اوّل پر حکومتی دعووں سے سجے رنگین پوسٹر، اندرونی صفحات پر انہی وزیروں کے "خصوصی انٹرویوز" اور انٹرویوز بھی ایسے جن میں ہر جھوٹ کو سچ کا جامہ پہنا دیا جاتا ہے۔ اخبارات اب خبر نہیں دیتے، منظرنامہ تخلیق کرتے ہیں۔ وہ تصویر دکھاتے ہیں جو حکومت دکھانا چاہتی ہے اور وہ حقیقت چھپاتے ہیں جو عوام جاننا چاہتے ہیں۔
کبھی یہی اخبار عوام کا آئینہ ہوا کرتے تھے، آج وہ درباریوں کے لیے خوشنما عکس فراہم کرنے والے آئینے بن چکے ہیں۔ آج ان کے صفحات پر ضمیر کی قیمت اس بینر اشتہار سے لگائی جاتی ہے جو صفحۂ اوّل کے نچلے حصے میں جگمگاتا ہے۔ اشتہار نہ چھاپو تو اشتہار بند اور اشتہار بند ہو تو اخبار بند! یہی وہ نکتہ ہے جہاں صحافت اپنا وقار کھو بیٹھی ہے اور ضمیر سرکاری اشتہار کے نرخنامے میں فروخت ہونے لگا ہے۔
موجودہ دور میں عمل ثانوی اور بیان بنیادی بن چکا ہے۔ کارکردگی اب منصوبوں سے نہیں بلکہ بیانات سے ناپی جاتی ہے۔ سڑکیں گڑھوں سے بھری پڑی ہیں، اسپتالوں میں دوا نہیں، اسکولوں میں اساتذہ نہیں اور گھروں میں بجلی نہیں مگر وزیر محترم ایک بیان جاری کرتے ہیں: "ہم نے صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر میں انقلاب برپا کر دیا ہے! " اور بس، گویا یہی حقیقت ہے اور باقی سب فسانہ!
ایسے میں ایک منظر بار بار ذہن میں آتا ہے۔ ایک نکڑ پر دو بزرگ حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک بزرگ حالات کی ابتری، مہنگائی، بے روزگاری اور بدانتظامی کے حوالے سے مسلسل دلائل دے رہے تھے۔ دوسرا کسی طور ماننے کو تیار نہ تھا۔ بالآخر پہلا صاحب بولا: "بھائی صاحب! یہ میں نہیں کہہ رہا، یہ تو اخباری بیان ہے! " اور دوسرے صاحب نے فوراً اثبات میں سر ہلا دیا۔ جیسے "بیان" نے دلیل کو مات دے دی ہو۔ یہ ہے ہماری قومی نفسیات ہم دلیل سے نہیں، سرخی سے قائل ہوتے ہیں۔ تحقیق سے نہیں، تحریر سے مرعوب ہوتے ہیں اور یہ تحریر اگر اشتہار سے ممزوج ہو، تو ہمیں سچ سے بھی زیادہ عزیز لگتی ہے۔
آج اخبارات ماحول سازی کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ ان کے ایڈیٹوریل زاویے، رپورٹنگ کی زبان، تصاویر کے انتخاب اور شہ سرخیوں کی ترتیب سب کسی مخصوص بیانیے کو بڑھاوا دینے کے لیے ترتیب پاتے ہیں۔ کبھی صحافت کا کام سچ کو تلاش کرنا تھا، آج اس کا کام سچ کو گول کرنا ہے۔ جو اخبار کل تک مزاحمت کی علامت تھا، آج وہ مفاہمت کا مروجہ مرکز بن چکا ہے۔
یہ سوال ہر اس صحافی اور ادارے کے ضمیر پر بوجھ بن کر موجود ہے جو خود کو "قومی ترجمان" کہتا ہے۔
کیا اخبار کا کام حکومت کی زبان بولنا ہے؟ کیا صحافت کا مقدس فریضہ صرف اشتہارات چھاپنا رہ گیا ہے؟ کیا عوام کا حقِ اطلاع بس اسی تصویر تک محدود ہے جس میں وزیر کی مسکراہٹ کیمرے کی آنکھ میں قید ہو؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ خود صحافت اپنا محاسبہ کرے۔ وہ قوم کی آواز بننا چاہتی ہے یا اقتدار کی بازگشت؟ وہ آئینہ ہے یا سیلفی کیمرہ؟ اور اگر وہ ریاست کا چوتھا ستون ہے، تو کیا وہ اشتہاروں کا ہولڈنگ بورڈ بننے پر رضامند ہو چکی ہے؟
اخبار کے صفحے پر چمکتا اشتہار، وزیر کے بیان کی عکس بندی اور عوام کے دکھ سے لاتعلق سرخیاں یہی آج کا صحافتی منظرنامہ ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ قومیں اشتہاروں سے نہیں، سچ سے بنتی ہیں اور سچ وہی ہے جو بغیر خوف، بغیر لالچ اور بغیر مصلحت لکھا جائے، چھاپا جائے اور بولا جائے۔

