Intikhabi Wadon Ka Mawazna Amli Iqdamat Se
انتخابی وعدوں کا موازنہ عملی اقدامات سے

پاکستانی سیاست میں انتخابی وعدے اب محض نعرے نہیں بلکہ باقاعدہ ایک صنعت بن چکے ہیں، جہاں ہر امیدوار، ہر جماعت اور ہر منشور ایک "برانڈ" کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ الیکشن کا موسم آتے ہی سیاسی بازار میں نئی آفرز، خصوصی رعایتیں اور "عوامی بہبود کے میگا پیکجز" متعارف کروائے جاتے ہیں، جیسے کوئی سپرمارکیٹ سال کے آخر میں کلیئرنس سیل لگا دے۔ ہر وعدہ ایک خوش رنگ اشتہار کی مانند ہوتا ہے، جس میں "سب کچھ آدھی قیمت پر" کی طرز پر خوشحالی، روزگار، انصاف اور ترقی کی نوید سنائی جاتی ہے لیکن اس اشتہار کے نیچے چھوٹے حروف میں لکھا ہوتا ہے: شرائط لاگو ہوں گی!
ہمارے سیاسی منظرنامے میں وعدے محض قول نہیں، بلکہ ایک ایسا فن ہیں جسے ہر سیاستدان نے اپنی پارٹی پالیسی میں شامل کر لیا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انتخابی وعدہ اب وہی مقام رکھتا ہے جو شادی سے پہلے کیے گئے وعدے رکھتے ہیں سننے میں خوبصورت، نبھانے میں بھاری اور بھولنے میں سہل۔ سیاستدانوں کی تقریریں اب شاعری کی صورت اختیار کر چکی ہیں، ہر مصرع امید جگاتا ہے اور ہر قافیہ کسی نہ کسی جھوٹ کو ترتیب دیتا ہے۔
2024 کے انتخابات بھی اس قومی روایت سے مختلف نہ تھے۔ ہر سیاسی جماعت نے عوام کے لیے دودھ و شہد کی نہریں بہانے کا اعلان کیا، جیسے اقتدار میں آتے ہی پورے ملک کو دبئی کی شاہراؤں پر لے جائیں گے اور ہر شہری کو سویٹزرلینڈ کا صحت کارڈ تھما دیں گے۔ کسی نے کہا کہ ہم نوجوانوں کو باعزت روزگار دیں گے، گویا بیروزگاری صرف گزشتہ حکومت کی پیداوار تھی۔ کوئی انصاف کی فراہمی کے نعرے لے کر آیا، جیسے عدلیہ اور پولیس کا مسئلہ فقط بجٹ سے جڑا ہے، عقل سے نہیں۔ لیکن انتخابات کے بعد، سب وعدے ایسی برقی لائٹیں بن جاتے ہیں جو صرف الیکشن کی شام تک جلتی ہیں، پھر بجھ جاتی ہیں اور عوام، اندھیرے میں ہاتھ مارنے لگتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں وعدے کرنا کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا۔ اصل مسئلہ ان وعدوں کی نیت، منصوبہ بندی اور پیچھے چھپی فکری دیانت کا فقدان ہے۔ سیاستدان وعدے اس لیے نہیں کرتے کہ وہ انہیں پورا کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ عوام سننا چاہتے ہیں۔ عوام کے جذبات کا تجزیہ کرکے جو "پاپولر پیکیج" بنتا ہے، وہی منشور کہلاتا ہے ایک ایسا دستاویز جسے نہ کوئی پڑھتا ہے، نہ یاد رکھتا ہے، سوائے صحافیوں اور مخالفین کے، جن کے لیے یہ بعد میں طعنوں کا خزانہ بن جاتا ہے۔
میدانِ عمل میں ان وعدوں کی حقیقت کچھ یوں ہوتی ہے کہ عوام کو ترقی کی شاہراہ پر لے جانے کے لیے جس سڑک کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ ابھی تک تعمیر ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کا ٹینڈر بھی ایک بااثر شخصیت کی ٹیبل پر منظوری کا منتظر ہے۔ وہ ہسپتال جس کا افتتاح پچھلے الیکشن میں ہوا تھا، وہ اب بھی "زیر تکمیل" ہے اور جہاں مریض خود اپنا ٹیسٹ خود کروائیں، دوا خود خریدیں اور علاج کے بعد حکومت کو دعائیں بھی خود دیں۔
خیبرپختونخوا کی مثال تو خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جہاں گزشتہ دہائی میں تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ دے کر بارہا اقتدار حاصل کیا۔ لیکن ہر بار وعدوں کا لب و لہجہ نیا اور انجام وہی پرانا۔ تعلیم کے شعبے میں ترقی کی نویدیں سنائی گئیں، مگر اسکول آج بھی دیواروں، چھتوں اور اساتذہ کو ترس رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں صحت کارڈ کے "ری لانچ" کی بازگشت ضرور سنائی دی، لیکن مریض آج بھی پرچیاں ہاتھ میں لے کر ہسپتال کے دروازے پر قطار میں کھڑے ملتے ہیں۔
روزگار کا حال تو یہ ہے کہ نوجوان ماسٹرز اور ایم فل کی ڈگریاں لے کر چوک پر موبائل کارڈ بیچنے پر مجبور ہیں اور جب سرکاری ملازمت کے اشتہارات آتے ہیں تو وہ بھی "خالص میرٹ" پر مخصوص طبقات میں تقسیم ہو جاتے ہیں جیسا کہ میرٹ کی نئی تعریف "چہرہ شناسی" ہو چکی ہے۔
کرپشن کے خاتمے کے نعرے ہر بار زیادہ گرجدار ہوتے ہیں، مگر زمینی سطح پر بدعنوانی اب صرف عادت نہیں، بلکہ "نظام کا حصہ" بن چکی ہے۔ جن اداروں کو شفافیت کی علامت بنایا گیا، وہاں بھی اب فائل آگے بڑھانے کے لیے کچھ نقدی درکار ہوتی ہے اور اگر کسی کا تعلق حکمران جماعت سے ہو، تو قانونی رکاوٹیں خود بخود ہٹ جاتی ہیں۔
یہ سب اس بات کا مظہر ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر وعدوں پر نہیں، وعدہ خلافیوں پر چلتا ہے۔ عوام، جنہیں جمہوریت کا ستون کہا جاتا ہے، وہ ہر الیکشن میں ووٹ دے کر خود اپنے ہی خوابوں کا قتل عام کرتے ہیں اور اگلے انتخابات میں پھر انہی قاتلوں کو زندہ باد کے نعرے لگا کر خوش آمدید کہتے ہیں۔
سیاستدان جانتے ہیں کہ قوم کی یادداشت کمزور ہے اور یہ کمزوری ان کے لیے سب سے بڑی سیاسی سہولت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار نئے وعدے کرتے ہیں اور پرانے جھوٹوں کو "حالات کی مجبوری" کہہ کر معاف کرا لیتے ہیں۔
یہ کھیل اب اس نہج تک پہنچ چکا ہے جہاں عوامی امیدیں مزاح بن چکی ہیں اور وعدے ایک پرانا سیاسی لطیفہ۔ جب عوام کی سادگی اور سیاستدانوں کی چالاکی ایک ہی فریم میں دکھائی دینے لگے، تو سمجھ لیں کہ سیاست اب خدمت نہیں، ایک طویل افسانہ ہے وہ افسانہ جس میں کردار بدلتے رہتے ہیں، مگر کہانی وہی رہتی ہے۔
آخرکار، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر سیاستدانوں نے سنجیدگی، فکری دیانت اور ریاستی وژن کو اپنا وطیرہ نہ بنایا، تو وہ دن دور نہیں جب عوام نہ صرف وعدوں کو مسترد کریں گے، بلکہ اس نظام کو بھی سوالیہ نشان بنا دیں گے جس میں بار بار انہیں دھوکہ دیا گیا اور جب عوام سوال اٹھانا شروع کرتے ہیں، تو صرف نعرے نہیں، تاج بھی گرتے ہیں۔

