Berozgari Barh Gayi Hai
بے روزگاری بڑھ گئی ہے

یہ ملک ہمیشہ سے عجیب ہے۔ یہاں راتیں امید لے کر اترتی ہیں اور صبحیں حقیقت کا سوال بن کر سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ چند روز پہلے "پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس" کی نئی لیبر فورس رپورٹ آئی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے کسی نے خاموشی سے قوم کے کندھوں پر ایک اور بوجھ رکھ دیا ہو۔ رپورٹ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے الفاظ نہیں محرومیاں صفحے پر لکھی ہیں۔ 7.1 فیصد بے روزگاری۔۔ یعنی تقریباً 5.9 ملین پاکستانی اس وقت روزگار کی تلاش میں دربدر پھر رہے ہیں۔ یہ صرف ایک عدد نہیں ہوتا یہ ایک ماں کی نیند ہے ایک باپ کی خاموشی ہے، ایک نوجوان کی ٹوٹی ہوئی امید ہے اور ایک لڑکی کی رکی ہوئی خواہش ہے۔ وہ خواہش جو اس نے ڈگری لیتے وقت اپنے دل میں سنبھالی تھی۔
عجیب بات یہ ہے کہ زیادہ تر بے روزگار پڑھے لکھے ہیں۔ ڈگریاں، سرٹیفکیٹ، کورسز، سب کچھ موجود مگر ملازمت نہیں۔ انسان کبھی کبھی حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کیسی ریاست ہے جہاں تعلیم تو بڑھ رہی ہے مگر مواقع کم ہو رہے ہیں۔ ملک کے مختلف حصے اس بوجھ کو الگ الگ شدت سے سہہ رہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں بے روزگاری نو9.6 فیصد ہے۔ پنجاب میں 7.3 فیصد اور سندھ میں 5.3فیصد ہے اور ستم دیکھئے کہ سب سے زیادہ متاثر وہی عمر کا طبقہ ہے جسے ہم ملک کا مستقبل کہتے نہیں تھکتے۔ پندرہ سے انتیس سال کے نوجوان۔ اس عمر میں آدمی کے اندر وہ آگ ہوتی ہے کہ پہاڑ بھی کاٹ لے مگر روزگار کے دروازے بند ہوں تو اندر کی آگ بھی بجھ جاتی ہے۔
لوگ سوچتے ہیں کہ بے روزگاری صرف معیشت کا مسئلہ ہے۔ نہیں، یہ پورے معاشرے کی بدقسمتی ہے۔ گھروں کے بجٹ بدل جاتے ہیں، رشتے دباؤ میں آ جاتے ہیں خوداعتمادیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور گفتگو کے موضوع بدل جاتے ہیں۔ کبھی ایک گھر میں شام چائے کے ساتھ بات ہوتی تھی مستقبل کی آج وہی شام گزر بسر کے حساب میں ختم ہو جاتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے سامنے اپنے ہی خواب چھپانے لگتے ہیں۔ نوجوان اپنے ہی کمرے میں خاموش بیٹھے رہتے ہیں، جیسے کسی جواب کے انتظار میں ہوں جو کہیں سے مل ہی نہیں رہا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ مسئلہ صرف "ملازمت" کا نہیں۔ یہ ایک سوچ کا بحران ہے، ایک سمت کے بدل جانے کا وقت ہے۔
یہ اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارا معاشی ڈھانچہ بدلتے وقت کے ساتھ چل نہیں رہا۔ صنعتیں سکڑ رہی ہیں، زراعت دباؤ میں ہے، چھوٹے کاروبار سانس لینے کو جگہ ڈھونڈ رہے ہیں اور نوجوانوں کے پاس صلاحیت تو ہے مگر راستہ نہیں۔ یہ خلا صرف پالیسیوں سے نہیں بھرے گا، اس کے لیے نیت، سمت اور ہمت چاہیے۔ ہم وہ قوم تھے جو دنیا کو محنت، ہنر اور غیرت کا درس دیتے تھے۔ آج اسی قوم کا پڑھے لکھے جوان دروازے کھٹکھٹا رہا ہے اور جواب میں خاموشی سن رہا ہے۔ جب کسی ملک کے نوجوان خاموش ہو جائیں تو سمجھ لیجیے کہ بحران دروازہ توڑنے کے قریب ہے۔ مگر اس میں امید کا پہلو بھی ہے۔ قومیں تب ہی اٹھتی ہیں جب وہ اپنی خامیاں دیکھنے کی ہمت رکھتی ہیں۔
یہ وقت الزام تراشی کا نہیں، فیصلہ سازی کا ہے۔ روزگار تب پیدا ہوگا جب ہم اپنی صنعتوں کو زندہ کریں گے، ٹیکنالوجی اور ہنر میں سرمایہ لگائیں گے، نوجوانوں کو تربیت دیں گے، خواتین کے لیے میدان کھولیں گے اور سب سے بڑھ کر پالیسی کو تسلسل دیں گے۔ یہ مسائل ایک سال میں پیدا نہیں ہوئے اور ایک سال میں ختم بھی نہیں ہوں گے۔ مگر راستہ بنانے کے لیے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ 80 لاکھ بے روزگار افراد دراصل 80 لاکھ کہانیاں ہیں۔ ہر کہانی اپنے اندر دکھ، جدوجہد اور امید لیے ہوئے ہے۔
یہ کہانیاں ہمیں بتا رہی ہیں کہ ملک کو صرف ترقی کی بات نہیں، ترقی کا راستہ بھی چاہیے اور وہ راستہ نوجوانوں کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن اگر ہم رپورٹ کے اعداد کو صرف اعداد سمجھیں، اگر ہم ان 80 لاکھ افراد کے چہروں میں نظر نہ ڈالیں، ان کی راتوں کی نیند اور دن کے خواب نہ دیکھیں، تو پھر ہم صرف اعداد کی دنیا میں رہ جائیں گے اور حقیقت کو نظر انداز کر دیں گے۔ یہ بیانیہ ہمیں بتاتا ہے کہ معاشرتی دباؤ، ذہنی تھکن اور خاندانوں میں بڑھتے ہوئے تناؤ کی جڑیں کہاں ہیں۔
اس وقت ہمیں ضرورت ہے صرف تنقید کی نہیں، عملی قدم اٹھانے کی۔ نوجوانوں کو موقع دیں، چھوٹے اور درمیانے کاروبار کو سہارا دیں، تربیت کے نئے پروگرامز لانچ کریں، دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع بڑھائیں اور خواتین کی شمولیت یقینی بنائیں۔ ہنر، ٹیکنالوجی، زراعت یہ تین ستون ہیں جن پر ہم اپنی معیشت کا مستقبل تعمیر کر سکتے ہیں۔ یہ ملک، یہ نوجوان، یہ محنت کش طبقہ سب ہم سے اپنی کہانی سننا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی خاموشی میں جواب نہیں دے سکتے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب ایک ساتھ قدم بڑھائیں، بصیرت اور نیت سے تاکہ یہ 7.1 فیصد صرف ایک عدد نہ رہے بلکہ ایک قوم کی بیداری، عزم اور ہمت کا نمائندہ بن جائے۔ رپورٹ ہمیں آئینے کی طرح اپنا چہرہ دکھا رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم اس آئینے کو دیوار پر ٹانگ کر گزر جائیں گے، یا اس میں جھانک کر اپنا چہرہ بدلنے کی کوشش کریں گے۔ یہی فیصلہ اس ملک کے آنے والے سالوں کا تعین کرے گا اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں خود سے کہنا ہوگا کہ بے روزگاری کا یہ بڑھتا ہوا سایہ تقدیر نہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اسے بدل سکتے ہیں۔ کہانی ختم نہیں ہوئی، بس رکی ہوئی ہے اور قومیں تبھی سنورتی ہیں جب وہ رکنے کے بعد اٹھ کر دوبارہ چلتی ہیں۔

