Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Ali Durrani
  4. Barhti Hui Berozgari Aik Khamosh Bohran

Barhti Hui Berozgari Aik Khamosh Bohran

بڑھتی ہوئی بے روزگاری ایک خاموش بحران

شہر کی صبحوں کا رنگ بدل چکا ہے۔ کیفے، کوچنگ سینٹر اور سڑکوں کے کنارے وہی مناظر ہر روز دہراتے ہیں۔ ڈگریاں ہاتھوں میں، فائلیں بغل میں، چہروں پر امید اور لبوں پر ایک سوال: اب کیا کریں؟ ان نوجوانوں میں کچھ ایسے ہیں جن کے والدین نے قرض لے کر تعلیم مکمل کروائی، کچھ نے نوکری کے خواب میں گھر سے ہجرت کی، مگر انجام ایک سا ہے۔ دروازے بند، جواب خاموش۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اب کسی اقتصادی رپورٹ کا عنوان نہیں رہی، یہ روزمرہ زندگی کی حقیقت بن چکی ہے۔

یہ مسئلہ محض معاشی نہیں بلکہ نفسیاتی، سماجی اور اخلاقی بحران میں ڈھل چکا ہے۔ لاکھوں نوجوان جو اپنے مستقبل کے خواب لے کر میدانِ عمل میں اترے تھے، آج ذہنی دباؤ، احساسِ محرومی اور عدم تحفظ کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر خود کو معاشرتی نظام سے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق جب کسی معاشرے میں محنت کا پھل دستیاب نہ ہو تو نوجوانوں کے اندر بے یقینی اور خود شک پیدا ہوتا ہے، ایک ایسا زہر جو رفتہ رفتہ اعتماد کو ختم کر دیتا ہے۔ یہ ذہنی دباؤ بعض اوقات "پریشانی، نیند کی کمی اور حتیٰ کہ ڈپریشن" میں بدل جاتا ہے، جو نوجوانوں کی تخلیقی اور عملی صلاحیتوں کو محدود کر دیتا ہے۔

گزشتہ ایک دہائی میں ملکی معیشت مسلسل دباؤ میں رہی۔ توانائی کے بحران، سیاسی غیر یقینی اور سرمایہ کاری میں کمی نے صنعتوں اور کاروباروں کو مفلوج کر دیا۔ سرکاری اداروں میں بھرتیاں کم ہوئیں، نجی شعبے نے اپنے دروازے بند کیے اور نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان طبقہ روزگار کے لیے سرگرداں رہ گیا۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح قومی اوسط سے تقریباً دوگنی ہے، مگر ان اعداد کے پیچھے وہ انسانی کہانیاں ہیں جنہیں کوئی رپورٹ نہیں لکھتی۔ یہ نوجوان اکثر اپنے خاندان کے لیے بوجھ محسوس کرتے ہیں اور یہی احساس ان کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔

ہمارا تعلیمی نظام بھی اس بحران کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہم اب بھی نصاب میں وہی مضامین پڑھا رہے ہیں جن کی مارکیٹ میں کوئی طلب نہیں۔ فنی تعلیم، ڈیجیٹل مہارت یا جدید ٹیکنالوجی سے جڑے کورسز کی کمی نے تعلیمی اداروں اور صنعتوں کے درمیان فاصلہ بڑھا دیا ہے۔ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوان جب عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ اس دنیا کے لیے تیار ہی نہیں جس کا انہیں وعدہ کیا گیا تھا۔ یہی احساس رفتہ رفتہ ذہنی دباؤ، بے یقینی اور خود اعتمادی کے زوال میں بدل جاتا ہے۔ بعض نوجوان اپنی صلاحیتوں پر سوال اٹھانے لگتے ہیں، جس سے وہ مزید غیر محفوظ اور معاشرتی سطح پر کمزور ہو جاتے ہیں۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں 18 سے 35 سال کی عمر کے 60 فیصد نوجوان کسی نہ کسی درجے کے ذہنی دباؤ یا بے چینی کا شکار ہیں۔ ماہرین اسے اقتصادی خوف قرار دیتے ہیں، یعنی روزگار اور مالی تحفظ سے جڑا ہوا خوف۔ اس خوف کے اثرات صرف فرد تک محدود نہیں رہتے بلکہ خاندانی اور سماجی زندگی پر بھی پڑتے ہیں۔ گھروں میں جھنجھلاہٹ، والدین میں پریشانی اور رشتوں میں دوریاں بڑھنے لگتی ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں نوجوانوں کی توانائی بیکار پڑی ہو، وہاں امید کمزور اور تلخی مضبوط ہو جاتی ہے۔

حکومتی سطح پر مختلف منصوبے متعارف کروائے گئے، مگر اکثر محض اعلانات تک محدود رہے۔ یوتھ قرض اسکیم اور اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام جیسے اقدامات اپنی نیت میں مثبت تھے مگر ان پر عمل درآمد کمزور رہا۔ اصل مسئلہ پالیسی کے تسلسل کی کمی ہے۔ جب حکومتیں اپنی سمت بدلتی رہیں تو سرمایہ کار اعتماد نہیں کرتے، صنعتیں نہیں بڑھتیں اور روزگار کے دروازے کھلے نہیں رہتے۔ روزگار پیدا کرنا صرف حکومت کی نہیں بلکہ پورے معاشی نظام کی مشترکہ ذمہ داری ہے، لیکن اس نظام میں توازن تب ہی آ سکتا ہے جب فیصلے طویل المدت سوچ کے ساتھ کیے جائیں۔

دنیا کے کئی ممالک نے نوجوانوں کی قوت سے فائدہ اٹھایا۔ بھارت نے آئی ٹی سیکٹر میں لاکھوں نوکریاں پیدا کیں، بنگلہ دیش نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ترقی دے کر بے روزگاری کم کی، جبکہ ملائیشیا نے فنی تعلیم کو قومی ترجیح بنایا۔ پاکستان بھی یہی کر سکتا ہے، مگر اس کے لیے صرف نعروں نہیں، نیت اور نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کی بڑی آبادی ہمارے لیے چیلنج نہیں بلکہ ایک موقع ہے، بشرطیکہ ہم اسے مواقع فراہم کریں۔

خود روزگاری اور ڈیجیٹل معیشت اس وقت امید کی نئی سمت ہے۔ فری لانسنگ، آن لائن کاروبار اور سٹارٹ آپ کلچر نوجوانوں کے لیے امکانات سے بھرا میدان ہے۔ اگر حکومت اس سمت میں سادہ پالیسیاں بنائے، ٹیکس نظام میں آسانی پیدا کرے اور انٹرنیٹ تک بہتر رسائی فراہم کرے تو لاکھوں نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کی آگاہی، کیریئر کونسلنگ اور تربیتی مراکز کو تعلیمی اداروں کا لازمی حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ نوجوان صرف روزگار ہی نہیں بلکہ ذہنی استحکام بھی حاصل کر سکیں۔

بے روزگاری کا سب سے خطرناک پہلو اس کی خاموشی ہے۔ یہ کسی احتجاج یا نعرے میں ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آہستہ آہستہ امید کے خاتمے میں بدل جاتی ہے۔ ایک خاموش نسل جو بولنا چھوڑ دے، وہ کسی قوم کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ آج اگر ہم نے نوجوانوں کے اس المیے کو محسوس نہ کیا تو کل یہ مایوسی ہمارے اجتماعی شعور کو متاثر کرے گی۔ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتیں ضائع ہوتی ہیں اور معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس بحران کو محض سیاسی نکتہ چینی یا بیوروکریٹک فائلوں کا موضوع نہ بنائیں بلکہ اسے قومی چیلنج سمجھ کر حل کریں۔ کیونکہ جب ایک نسل اپنے مستقبل پر یقین کھو دیتی ہے تو قوموں کی تاریخ میں زوال وہیں سے شروع ہوتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم نوجوانوں کی آنکھوں میں امید دوبارہ روشن کریں تاکہ صبحیں پھر سے خوابوں کے رنگ دیکھ سکیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari