Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Nizami Street Baku (8)

Nizami Street Baku (8)

نظامی سٹریٹ باکو (8)

موسی ناغییف کے چار منزلہ گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے گھر کی بیرونی دیواروں پر بنے مشاہیر کے پورٹریٹس نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کروائی، یہ تعداد میں بہت زیادہ تھے، میں رک کر دیکھنا اور پڑھنا شروع کئے، ان دیواروں پر عہد رفتہ کی پوری تاریخ درج تھی، پورٹریٹس بھی جیسے ہم سے کہہ رہے تھے "ارے رکو، ہماری کہانیاں بھی سنو"۔ لیکن ہم مجبور تھے کیونکہ رات بارہ بجے کے بعد میٹرو ٹرین ہی نہیں بلکہ محبت بھی بند ہو جاتی ہے۔ باہم طے پایا کہ باقی پھر کسی اور دن پر رکھیں گے، کیونکہ کچھ لمحے ایسے ہونے چاہئیں جن کا پارٹ 2 بھی باقی ہوتا کہ دوستی، گھومنا، ہنسی اور ہلکی سی محبت کبھی ختم نہ ہو، دوستی، خلوص اور محبت کی کہانی جس میں تھکاوٹ بھی حسین لگتی ہے اور سادہ سی باتیں بھی دل میں گھنٹیاں بجا دیتی ہیں۔

شکیب جیسے باکو کی سڑکوں پر "محبت کا جی پی ایس" ہو، ایک مرتبہ پھر "سائڈ کٹ" مارتے ہوئے سیدھی سیدھی نظامی سٹریٹ کو نظر انداز کر گیا اور گلیوں، سڑکوں اور شاید کسی کھوئی ہوئی بلی کے راستے سے ہمیں ساحل میٹرو سٹیشن پہنچا دیا اور وہ بھی فاسٹ اینڈ فیوریس اسٹائل میں، ٹرین گویا ہماری محبت کی کہانی کا اگلا سین تھی، جو ٹن ٹن کرتی ہوئی جلد ہی آ گئی، ہم دونوں سوار ہوئے، ایک لمحے کو لگا جیسے پوری ٹرین صرف ہمارے لیے رکی ہو (شاید ڈرائیور بھی شکیب کی امیزنگ ہالیڈے فرم کا کوئی ٹور گائیڈ ہو)۔

28 مئی میٹرو سٹیشن پر مجھے ٹرین تبدیل کرنا تھی لیکن شکیب کا دل نہیں مانا، محبت بھری آنکھوں اور ضدی بچوں والے لہجے میں بولا "یار میرے ساتھ ہی چل، میرے فلیٹ میں قیام کر اور بس انجوائے کر"۔ اس کی پیشکش اچھی تھی لیکن تھکاوٹ کے مارے جسم کی پکار غالب آگئی "تھوڑا آرام بھی کرلو"۔ میں اپنے ہوٹل جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک بھرپور نیند چاہتا تھا، مگر شکیب اتنی جلدی کہاں ماننے والا تھا، وہ فوراً بول اٹھا "جب تک تم یہاں ہو، گاڑی بمع ڈرائیو، ٹور گائیڈ، رہائش و کھانا، سب میری طرف سے، جی بھر کر باکو کو ایکسپلور کرو، مزے لو، دل خوش کرو" اور میں؟ بس مسکرا کر شکرگزاری کے لفظوں کو دل سے چائے کی پیالی میں ڈالتے ہوئے کہا "یار شکیب، تم تو باکو کے شاہ رخ خان نکلے ہو"۔

جعفر جبار علی میٹرو اسٹیشن پر اُترنے والا میں واحد مسافر تھا، برقی سیڑھیاں اس وقت بند تھیں، جب میٹرو سٹیشن سے باہر نکلا تو یوں محسوس ہوا جیسے باکو اپنی محبوب نیند کی گود میں جھول رہا ہو، چار سُو ایک رومانوی سی خاموشی، جیسے پوری کائنات نے مجھے خوش آمدید کہنے کے لیے وقفہ لے لیا ہو، نہ کوئی انسان، نہ جن، نہ سایہ، فوارے بھی لگتا تھا کہ سارا دن "سیلفیاں" کھنچوانے کے بعد اب ریٹائر ہو کر گہری نیند میں جا چکے تھے، دن کی ہاؤ ہو کا منظر تو جیسے شہر نے کسی یادگار خواب کی طرح محفوظ کر رکھا ہو۔

اور میں کسی فلم ہیرو کی طرح، راستے کو زبانی یاد کئے، ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں مست "شیر کی چال" چلتا، گنگنتا ہوا، چیمپئنز لیگ کے فاتح کی طرح اپنے ہوٹل کی طرف بڑھا، استقبالیہ پر آذری کلرک نے جب مجھے دیکھ کر سلام کیا تو لگا کہ جیسے کسی رومانوی ناول کا کردار حقیقی مشن ختم کرکے بخیر و عافیت واپس آیا ہو، میں سلام کا جواب دیتا لفٹ میں سوار ہو کر اوپر آیا، ہوٹل کا کمرہ گویا میری تھکن کا آرام دہ آشیانہ، میرا ہی منتظر تھا، جیسے ہی موبائل کو وائی فائی سے جوڑا، واٹس ایپ نے "بوم" کرکے پیغامات کی برسات کر دی جیسے پورے قصبے نے بھنگڑا شروع کر دیا۔

"اوہ، ہو، آن لائن ہوگیا"

"بھائی، خیریت؟"

"تصویر بھیج، جلدی"۔

یوں لگا جیسے صرف میں نہیں بلکہ پورا باکو میرے آن لائن آنے پر جشن منا رہا ہو، کہیں، تھکن اور کہیں ہنسی کا چٹخار، یہ لمحہ گویا باکو کے رومانس اور کامیڈی کا حسین امتزاج تھا۔

لباس بدلا، موبائل پر نظر ڈالی، سب سے زیادہ روزا کے میسج تھے، فکر میں گھلی ہوئی، ناراض سی اور شاید تھوڑا سا تڑپی ہوئی، میں یہ سوچ کر نظر انداز کر دیا "رات کا آخری پہر ہے، اس وقت کسی کو ڈسٹرب کرنا ایک جنٹل مین کے شایان شان نہیں، صبح ہی بات کروں گا"۔ لیکن قسمت نے کہا "آج سکون کی نیند نہیں ملنے والی، بھائی"۔ عین اسی لمحے روزا کا میسج آیا "آن لائن ہو تو جواب کیوں نہیں دیا؟"

اس نے یقیناً میرا واٹس ایپ سٹیٹس آن لائن دیکھ لیا تھا، میں نے مختصر الفاظ میں تھکی ہاری روداد سنا دی، ایک آدھ رومانٹک جملہ بھی جڑ دیا اور فیصلہ ہوا کہ اگلی صبح ملاقات کرتے ہیں اور کسی تاریخی مقام کی سیر کو جاتے ہیں، میں نے موبائل آف کیا، ایک کھڑکی کا پردہ تھوڑا سا سرکایا تاکہ چاندنی یہ نہ سمجھے کہ میں اسے جان بوجھ کر نظر انداز کر رہا ہوں اور بستر پر دراز ہو کر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

Check Also

Burai Ko Khud Mein Aur Achai Ko Dusron Mein Talash Karo

By Syed Mehdi Bukhari