Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Nizami Street Baku (7)

Nizami Street Baku (7)

نظامی سٹریٹ باکو (7)

شکیب نے قہقہہ لگایا "اور تُو یہ سب چنے دیکھ کر کہ رہا ہے"۔ ہم دونوں پھر ہنسے لیکن دل میں واقعی احساس جاگا کہ یہ میلہ صرف رنگوں اور رونق کا نہیں بلکہ انسانوں کی زندگی، ان کی ترجیحات، ان کی روایات اور دھڑکنوں کا جشن ہے، یہ نرگس میلہ جذبات رشتوں اور بارش کے بعد دھوپ کی عکاسی ہے"۔

شکیب نے آخر میں لقمہ دیا "خدا کا شکر ہے کہ اس بار یہاں کوئی بار نہیں، صرف نرگس ہے"۔

اتنے میں درختوں پر نصب سپیکروں سے رشین میوزک گونجنے لگا، "سوودنیا اُترم میکروفون کریچال، گدے ژی رُوچکی، دائتے مِنے واشے رُوچکی، می بُودیم تانسیوات"، ترجمہ "آج صبح میکروفون چیخا، تمہارے ہاتھ کہاں ہیں؟ مجھے اپنے ہاتھ دو، ہم رقص کریں گے"۔ جی ہاں، وہی مخصوص بالکان بِیٹ، وہی دیوانہ پن بھری دُھنیں، سیمی میں گزرے زمانہ طالب علمی کا وہی شوخ و چلبلا گانا جونہی کانوں میں پڑا، نا چاہتے ہوئے بھی ہمارے قدم میلے کے اندرونی حصے کی طرف بڑھے، ایک عجیب سی کشش نے قدموں کو آہستہ کر دیا، کچھ چھوٹے بچے درمیان میں آ کر ایسی خوشی سے ناچ رہے تھے جیسے وہ گانا ان کی رگوں میں دوڑ رہا ہو، یا جیسے وہ چھوٹے چھوٹے اسپائیڈر مین ہوں جنہیں رشین بیٹ سے چارج کیا گیا ہو، ان کے پاس سے گزرتے میں نے جوش سے آواز لگائی۔

"Ма-ла-дец! "

یعنی زبردست۔۔ بس، یہ کہنا تھا کہ بچوں کے چہروں پر روشنی آ گئی، جیسے انہیں کوئی سپرپاور مل گئی ہو، انہوں نے ناچنے کی رفتار دگنی کر دی اور ایک نے تو ایسا گھوم کر ڈانس کیا جیسے روسی بیلے کا ہیرو ہو، شکیب نے کندھے سے ہلکا سا دھکا دیا اور بولا "یار تُو بچوں کو بھی انرجی ڈرنک کی طرح چارج کر دیتا ہے"۔

ہم دونوں ہنسے اور دل ہی دل میں محسوس کیا کہ یہ میلہ، یہ گانا، یہ ڈانس، یہ قہقہے۔۔ سب کچھ زندگی کی وہ ہلکی پھلکی فلم ہیں جو کبھی پرائم ٹائم پر نہیں آتی لیکن یادوں کے چارٹ پر ہمیشہ پِٹ رہتی ہیں۔

ہوا میں سردی کی شدت بڑھ رہی تھی، شکیب نے ایک کیفے کی طرف اشارہ کیا، "یہاں کی کافی دل سے بناتے ہیں اور بِل دل توڑ دیتا ہے"۔ ہم ایک چھوٹی سی میز کے گرد بیٹھ گئے جس کے آس پاس رنگ برنگے پھول لگے تھے، جیسے کسی آذری فلم کا سین ہو، ویٹر آیا، جس کے بال اتنے جیل زدہ تھے کہ اگر اس کے سر پر چڑیا بھی بیٹھتی تو پھسل جاتی، اس نے مینو تھمایا اور شکیب نے بغیر دیکھے آرڈر دے دیا "دو ترک کافی، ایک چاکلیٹ مووس اور دو دلوں کی بے چینی"۔ میں نے حیرانی سے دیکھا، "کیا یہ آخری چیز مینو میں تھی؟"، شکیب مسکرایا "یہ یہاں کے ماحول میں فری ملتی ہے"۔

کافی آئی، بھاپ کے ساتھ خواب اور چاکلیٹ مووس کی یادیں، ہم نے ہلکی ہلکی موسیقی کے بیچ چسکیاں لیں اور ان لمحوں کو دل کے البم میں چپکا دیا، اسی دوران ایک سٹریٹ آرٹسٹ نے ہماری میز کے قریب آ کر اپنی جیب سے کچھ خاکے نکالے، شکیب نے اشارہ کیا، "ہمارا کارٹون ورژن بنا دو، بس مجھے تھوڑا کم خوبصورت بنانا"۔ آرٹسٹ نے ایک نظر شکیب پر ڈالی، پھر میری طرف دیکھا اور کہا "سر، زیادہ فرق ڈالنا پڑے گا"۔ ہم دونوں اتنا ہنسے کہ دوسری میزوں پر بیٹھے افراد بھی مسکرا دیئے، شکیب نے کافی کا آخری گھونٹ لیا، ٹشو سے ہونٹ صاف کئے اور بڑے کریئٹو انداز میں بولا "یہ جگہ باکو کے دل کی دھڑکن ہے، تم نے ایک سے بڑھ کر ایک ریستوران میں کافی پی ہوگی لیکن یہ موسم، یہ ماحول، یہ بغیر میک آپ کوہ قاف کی پریاں فقط یہاں ملتی ہیں، یہ لمحات تمہیں ہمیشہ یاد رہیں گے"۔

کیفے کے باہر، نرگس میلہ کی چار دیواری کے ساتھ ایک چھوٹا سا بینڈ لائیو پرفارم کر رہا تھا، گٹار، وائلن اور ایک آواز جو سیدھی دل کی سیدھ میں اترتی تھی، بینڈ کا سنگر آذری زبان میں کوئی پرانا رومانی گانا گا رہا تھا اور ہمیں کچھ سمجھ نہ آتے ہوئے بھی سب کچھ دل کو سمجھ آ رہا تھا، میں نے شکیب سے کہا "یار یہ موسیقی دل میں وہ فائل کھول رہی ہے جو ہم نے برسوں سے کلوز کر رکھی تھی"۔ شکیب نے دلچسپ چوٹ کی "یہ سب یہاں کی فضا اور موسم کا اثر ہے، جو ایک مرتبہ یہاں آیا، اس کا بار بار آنے کو دل کرتا ہے"۔

اسی لمحے ہمارے عین سامنے ایک جوڑا رقص کرنے لگا، بہت دلکش، بہت آرام سے، جیسے دنیا ختم ہو جائے لیکن ان کا قدم نہ بہکے، انھیں دیکھ کر خاموشی سے صبر کا گھونٹ پیا، برسوں بعد زندگی میں خوش اور مطمئن لوگ دیکھے تھے، ہماری یہ رومانوی، ہنستی کھیلتی، تھوڑی فلسفی اور تھوڑی فلمی مہم اپنے کلائمکس کی طرف بڑھ رہی تھی مگر جیسے ہر فلم کے آخر میں کوئی دھماکہ خیز سین ہوتا ہے، ویسا ہی کچھ اب ہمارے ساتھ بھی ہونے جا رہا تھا، ہم نے قدم موڑے موسی ناغییف کے گھر کے عقب میں واقع اس خوبصورت، تاریخی میدان کی طرف، جہاں ہوا میں موسیقی گھلی ہوئی تھی، قلعہ کی دیواریں رات کی خاموشی میں ماضی کی سرگوشیاں کر رہی تھیں اور دل کہہ رہا تھا۔

"یہ جگہ نہیں، خواب ہے خواب"۔

بیرونی دیوار کے ساتھ ہی ایک میوزک تھیٹر پوری آب و تاب سے روشن تھا، سٹیج ایسے چمک رہا تھا جیسے باکو کی تاریخ نے ڈسکو بال پہن لیا ہو اور اس پر مقامی گلوکار ایسے گلا پھاڑے گا رہا تھا جیسے پوری کائنات سے محبت کا اعلان کر رہا ہو، تماشائی مست تھے، تالیاں بجا رہے تھے، قہقہے سنائی دے رہے تھے، سٹیج کے سامنے کچھ لوگ ایسے ناچ رہے تھے جیسے کسی نے ان کی روحوں کو فائیو جی کی سپیڈ والی مشترکہ وائی فائی سے جوڑ دیا ہو۔

میں اور شکیب ایک طرف کھڑے سب کچھ ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کوئی فیسٹیول نہ ہو، بلکہ کسی کہانی کا اختتامی باب ہو، ایسا دلچسپ باب جو قاری کو کتاب بند کرنے نہیں دیتا، شکیب نے گھڑی پر وقت دیکھا "یار۔۔ بارہ بجنے والے ہیں اور لگتا ہے کہ جیسے ابھی ابھی شام ہوئی ہو"۔ ہم کو یہاں مٹر گشت کرتے لگ بھگ چھ گھنٹے گزر چکے تھے لیکن نظامی سٹریٹ کی ہر عمارت، ہر کھڑکی، ہر گوشہ، ایک نیا راز، ایک نئی کہانی اور ایک نئی مسکراہٹ دے رہا تھا، واقعی، یہ تاریخ شیطان کی آنت نکلی جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔

Check Also

Burai Ko Khud Mein Aur Achai Ko Dusron Mein Talash Karo

By Syed Mehdi Bukhari