Nizami Street Baku (6)
نظامی سٹریٹ باکو (6)

یہ واقعہ سن کر ہم دونوں ایسے ہنسے جیسے بچپن میں سکول کی اسمبلی کے دوران پیچھے بیٹھ کر لطیفہ سنا ہو، پرفیوم کی دکانوں کے سامنے نصب بنچ پر بیٹھے ہم پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنستے رہے، مجھے کہنا پڑا، "یار یہ باکو نہیں بلکہ میٹ فلیکس کی لائیو ایکشن سیریز ہے"۔
وہ دن، وہ قصہ اور وہ ہنسی، بس یوں سمجھو کہ نہ صرف ٹریول ہوا بلکہ ٹریول+کامیڈی+رومانس+ایڈونچر پیکج فری میں ملا، کھانے کی وہ ذائقہ دار داستان، ہنسی کے قہقہوں میں لپٹا بار والا واقعہ اور نظامی سٹریٹ کی جگمگاتی شام، یہ سب کچھ کسی فلم کا سین ہی لگ رہا تھا۔
اب ہم دوبارہ رومانوی رفتار سے سٹریٹ پر واک کر رہے تھے، جیسے پسِ منظر میں کوئی ساز بج رہا ہو اور کیمرہ ہمیں سلو موشن میں فالو کر رہا ہو، اچانک شکیب ایک خوبصورت، شاندار سی عمارت کے سامنے رکا اور اُس کی آنکھوں میں وہی چمک آ گئی جو پرانے عاشق کی آنکھوں میں کسی محبوب کی تصویر دیکھ کر آتی ہے، اُس نے کہا، "یہاں، پانچویں فلور پر میرا آفس تھا، پانچ سال میں نے یہاں گزارے، نظامی سٹریٹ پر میری پہلی محبت، پہلا کرایہ اور پہلا بجلی کا بل بھی یہیں کا ہے"۔ پھر جیسے کوئی کارپوریٹ شیکسپیئر بول اٹھے، اُس نے بتایا، "میں نے آفس کی کھڑکی پر پاکستان کا پرچم لگا رکھا تھا۔۔ ایک پیار بھرا اشارہ، ایک بزنس چال"۔
میں نے داد دی، "واہ بھئی! حب الوطنی اور مارکیٹنگ کا کمال امتزاج"۔ مگر پھر شکیب نے وہ حقیقت سنائی جس نے مجھے پورا ہلا کر رکھ دیا"، "یہ بزنس چال الٹی پڑ گئی تھی، ہر پانش دس منٹ بعد کوئی پاکستانی آتا، بڑے ادب سے سلام کرتا اور پھر واش روم کا راستہ پوچھتا، حاجت پوری کرتا، شکریہ ادا کرتا اور نکل جاتا"۔
بس اتنا سننا تھا کہ میں قہقہوں کے طوفان میں بہتا ہوا زمین پر گر پڑا، آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا، شکیب کھڑا میری حالت سے خوب محظوظ ہو رہا تھا اور خود بھی اس تاریخی "ٹوائلٹ پالیسی" پر ہنسی روک نہ پایا، میں نے ہنستے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی لیکن پھر سے زمین پر گر پڑا، شکیب کا ہاتھ تھام کر اٹھتے ہوئے کہا "یار وہ تمہارا آفس نہیں تھا بلکہ پبلک سہولت سنٹر تھا اور وہ پرچم تم نے نہیں بلکہ پٹرول پمپ والے نے لگایا تھا"۔
ہنسی کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ہم آگے بڑھے، سٹریٹ پوری طرح روشن ہو چکی تھی اور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا، محبت، معلومات اور مزاح کا ایسا کومبو صرف شکیب کے ساتھ ہی ملتا ہے، ایک عدد سیر، چند عدد کہانیاں اور کھل کھلا کر بلند وبالا قہقہے، روزانہ کی خوراک پوری۔
چلتے چلتے ہم نظامی سٹریٹ کے اس حصے پر پہنچ چکے تھے جہاں ہر قدم پر یا تو آرٹ ہے، یا حیرت یا شکیب کی نئی کہانی، ہلکی ہلکی سردی کے ساتھ موسم رومانٹک ہو چکا تھا، میکڈونلڈ کی عمارت کے آگے ایک حسین اور بارش میں بھیگتی خاتون کا مجسمہ نصب تھا، ہاتھ میں چھتری اور چہرے پر وہی "محبوب کے انتظار میں ہلکی اداسی" جیسا تاثر، یہ کوئی عام سا مجسمہ نہیں تھا، یہ تو گویا رومانس اور سنگتراشی کی ملاقات کا شاہکار تھا، شاعر کی سوچ کو سنگ تراش نے چٹان پر تراش دیا تھا، چھتری پر بارش کے قطرے، لباس پر پانی کے چھینٹے، سب کچھ اتنا نفیس اور زندہ جیسے اگلے لمحے وہ خاتون چھتری گھما کر کہے گی۔
"اوہ، تم آ ہی گئے"۔
میں نے جھٹ سے اس مجسمے کے کندھے پر بازو جما کر یادگاری تصویر بنوائی، تصویر بناتے وقت بھی یہی احساسات نمایاں تھے "یہ کوئی یادگار سیاحتی لمحہ نہیں بلکہ یہ لوکل رومانس کا لو فریم ہے"۔ ابھی میں فوٹو گرافی میں مگن تھا کہ شکیب نے کہنی ماری اور کہا "اُدھر دیکھو، سٹریٹ کے بیچ دو مصور بیٹھے ہیں، یہ پنسل سکیچ بناتے ہیں اور کمال بناتے ہیں"۔
واقعی، اُن فنکاروں کے ہاتھوں میں جادو تھا، ان کی بنائی ہوئی تصویریں یوں لگتی تھیں جیسے کسی نے کیمرے کو پنسل سے ہرا دیا ہو، ہر چہرے کی لائن، ہر ہنسی کی جھلک، ہر آنکھ کی چمک پنسل سے ایسے قید کی ہوئی تھی جیسے جذبات کو فریم کر لیا گیا ہو۔
قیمت پوچھی تو بولے "90 منات"۔
میں نے دل میں سوچا "اتنی سستی آرٹ؟ اتنی سستی محبت؟ ارے یہ تو جذباتی لوٹ مار ہے"۔ ایسا فن تو ویسے ہی نایاب ہوتا ہے اور یہاں سٹریٹ کے عین وسط میں عام سی جگہ پر بیٹھا، ایسا غیر معمولی کام، ہم دونوں وہیں کھڑے ان فن پاروں کو دیکھنے لگے، میں نے شکیب سے کہا "یار یہ باکو نہیں بلکہ یہ تو رومانس، آرٹ اور بارش کی ٹرائی اینگل ہے اور ہم اس کے بیچ میں خوش نصیب تماشائی، محبت، ہنسی اور ناقابل فراموش لمحے"۔
نظامی سٹریٹ کی روشنیوں سے نکل کر ہم ایک نئے جگمگاتے جہاں میں داخل ہو گئے، جی ہاں سامنے تھا، ایک بڑا سا، دل کھول دینے وال سکوائر، جس کے دروازے پر نصب بورڈ چمک رہا تھا "نرگس میلہ"۔
میلے کا نام ہی ایسا معصومانہ اور خوشبودار تھا کہ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا، آنکھوں میں شرارت بھری اور بغیر کوئی پلان بنائے گیٹ کے اندر داخل ہو گئے، اندر قدم رکھتے ہی ایسا لگا جیسے رنگوں، خوشبوؤں، قہقہوں اور چہروں کا طوفان آ گیا ہو، یہ کوئی عام سا میلہ نہیں تھا، بلکہ ایک مکمل فیملی فلم کا لائیو سیٹ لگ رہا تھا، اِدھر عورتیں چہک رہی تھیں، اُدھر بچے بھاگ رہے تھے، ہر طرف زندگی کی چہل پہل تھی، ایک ثقافتی کارنیوال جو آپ کے اندر کے بور انسان کو ہنسا ہنسا کر جگا دے، لڑکیوں کی ٹولیاں ہر طرف تھیں، کوئی غبارے خرید رہی تھی، کوئی چنے کھا رہی تھی اور کوئی اپنی دوست کی بات پر یوں ہنس رہی تھی جیسے پوری دنیا کی خوشی اسی لمحے میں بند ہوگئی ہو۔
میں ایک جگہ رک گیا اور اردگرد نظر دوڑائی، ہر لباس ایک الگ کہانی، ہر انداز ایک الگ جمالیات، پھر ایک دم میرے اندر کا "فلسفیِ رومان" جاگ اٹھا اور میں نے شکیب سے کہا "یار، یہ صنف نازک کی خوبصورتی صرف چہرے یا لباس میں نہیں، یہ اُس کی ثقافت، اس کے لہجے، اس کی ہنسی، اس کے نو کہنے کا انداز اور چنے کھانے کے اسٹائل میں چھپی ہوتی ہے، یہ اکثر فیشن کے رجحانات اور طرزوں کی ایک وسیع رینج کو اپناتی ہیں، صحتمند اور چمکدار جلد کو برقرار رکھنے کے لیے جلد کی دیکھ بھال کے معمولات کو ترجیح دیتی ہیں، نیز عمر کے ساتھ ساتھ اینٹی ایجنگ پروڈکٹس کو شامل کرنا، میک آپ کی ترجیحات مختلف ہو سکتی ہیں، قدرتی شکل سے لے کر خاص مواقع کے لیے زیادہ ڈرامائی انداز تک، کاکیشین خواتین کے بالوں کی ساخت اور رنگ مختلف ہو سکتے ہیں، سیدھے اور سنہرے بالوں والی سے لے کر گھونگھرالی اور برونیٹ تک، اب تک ہر خاتون کا لباس صاف ستھرا، بے شکن نظر آیا ہے، پراعتماد اور سر اٹھا کر چلنا جو ان کی خود اعتمادی اور آزادی کی عکاسی کرتا ہے، زیادہ تر ٹراؤزر، جیکٹ ہمراہ سپورٹس شوز پہنے ہی نظر آئی ہیں"۔