Nizami Street Baku (5)
نظامی سٹریٹ باکو (5)

شکیب نے ایک ہاتھ سے ڈش کی طرف اشارہ کیا اور دوسرے ہاتھ سے "فود گائیڈ موڈ" آن کر دیا، یہ آذربائیجان کی مشہور قومی ڈش "لوانگی" ہے، چکن یا مچھلی کے اندر تلی ہوئی پیاز، اخروٹ اور خشک میوہ جات کا خزانہ بھرا جاتا ہے اور پھر مخصوص گہرا ذائقہ اور خوشبو دینے کیلئے مٹی کے تندور میں ایسے پکایا جاتا ہے جیسے کوئی محبوب خط لکھ کر سینے میں چھپا لے"۔
میں تو پہلے ہی خوشبو سے نیم بے ہوش تھا، یہ عالمانہ بیان سن کر تو پوری طرح عاشق ہوگیا، تلی ہوئی تل والی تندوری روٹی کا ایک نرم گوشہ توڑا، اسے مچھلی اور مخصوص صوص میں ڈِپ کیا اور جیسے ہی پہلا لقمہ منہ میں رکھا، بس یوں سمجھو کہ زبان نے دل کو میسج بھیجا "یہی ہے وہ، جس کی تلاش تھی"۔
ذائقہ؟ بھائی، فقط ذائقہ نہیں تھا، یہ محبت کا کوئی قدیم نسخہ تھا جو صدیوں بعد دوبارہ دریافت ہوا تھا، میں نے دوسرا نوالہ لیا، آنکھیں بند کیں اور منہ ہی منہ میں کچھ ایسا کہا جسے صرف عاشقانہ ذائقہ ہی سمجھ سکتا تھا۔
شکیب نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا، "کیسا ہے؟"
میں نے دائیں ہاتھ سے انگوٹھے اور انگشتِ شہادت کو ملا کر اشاروں کی عالمی زبان والا سپر کلاس ایوارڈ کا اشارہ دیا اور پھر ہم دونوں نے وہ کھانا ایسے کھایا جیسے کوئی گمشدہ خزانہ مل گیا ہو، چپ چاپ، مگر دل میں ڈھول بجتے رہے، یہ کوئی عام کھانا نہ تھا، یہ ایک "ذائقہ دار لو سٹوری" کا مرکزی سین تھا، جس میں نہ صرف محبت پکی تھی بلکہ مچھلی بھی۔
کھانے کے دوران شکیب بتاتا رہا "نظامی سٹریٹ کا فن تعمیر مختلف طرزوں اور سمتوں کی ترکیب کی عکاسی کرتا ہے، 19ویں صدی کے اوائل سے 20ویں صدی کے اوائل، 1950-1970 کی دہائی اور ایک جدید دور، زیادہ تر عمارتیں، جو پہلے درجے میں تعمیر کی گئی تھیں، "نیو رینیسانس"، "نیو گوتھک"، "باروک" اور "نیو کلاسیزم" کے انداز میں تعمیر کی گئی تھیں جیسا کہ اس دور میں تعمیر کی گئی شہر کی دیگر عمارتیں تھیں، "نیو موریش" طرز کا بھی غلبہ ہے جس میں معماروں نے اس کی تعمیر میں قومی فن تعمیر کے عناصر کو استعمال کرنے کی کوشش کی، گھروں کو چمکدار چونے کے پتھر سے لیپ کیا جاتا ہے۔
ان تعمیرات کو تین زون میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: پہلا - وورونٹسوف اسٹریٹ (اب اسلام سفرلی اسٹریٹ) اور فارسی اسٹریٹ (اب ایم مختاروف اسٹریٹ) کے درمیان، جہاں این اے وانڈر کے منصوبوں کے ذریعے تعمیر کی گئی قدیم ترین عمارتیں واقع تھیں، دوسرا علاقہ نونے اور ایم غفار اسماعیلوف کی تعمیرات، یہ تازا پیر مسجد سے جنوب کی طرف متصل علاقے سے جو کہ ایک اور دو منزلہ عمارتوں کا ایک کمپلیکس تھا، تیسرا ریلوے اسٹیشن کے پہلو میں، یعنی تیسرے زون میں، 19 ویں صدی کے اختتام اور 20 ویں صدی کے آغاز میں، جوزف پلوشکو اور آئی وی گوسلاوسکی کے منصوبوں کے ذریعے زیادہ اہم تین اور چار منزلہ عمارتیں تعمیر ہونا شروع ہوئیں، اس سٹریٹ کی تعمیراتی ترقی کی دوسری سطح 20 ویں صدی کے وسط میں نئی عمارتوں سے منسلک ہے، جو "سلطنت" یا نام نہاد "اسٹالن کی سلطنت" طرز میں نافذ کی گئی تھیں، جسے سٹالنسٹ فن تعمیر کے نام سے جانا جاتا ہے، بعد میں، 1950 کی دہائی کے آخر میں رہائشی مکانات تعمیر کیے گئے، جن میں سے بہت سے نئے فنی تعمیراتی انداز میں تعمیر کیے گئے جو دنیا کے بہت سے ممالک میں وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے تھے اور جسے "تعمیر پسندی" کے نام سے جانا جاتا تھا۔
آرٹ کے نقاد ایچ ایف ممدوف کے مطابق، تعمیراتی طرز تعمیر کو تقریباً پورے سوویت یونین میں پوری طرح اور کئی گنا دکھایا گیا تھا، جہاں اس شہر کو ایک نیا کردار دینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، باکو میں تعمیر پسندی کے لیے جوش و خروش کے نتیجے میں ایک مقامی قسم کی تخلیق ہوئی "باکو کی تعمیر پسندی"، جیسا کہ پہلے کی تعمیرات میں معماروں نے مزرقی اور قومی رنگوں کو متعارف کروایا جو خاص طور پر عمارتوں کی محرابوں اور مونوگرامس کی تعمیر میں محسوس کئے جا سکتے ہیں، جس سے ان عمارتوں کے مجموعی انداز کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا جاتا ہے اور بیرونی اطراف پر چمکدار چونے کا لیپ کیا جاتا ہے، اس عمل سے یہ روشن اور چمکدار نطر آتی ہیں، جدید تعمیرات خاص طور پر فلک بوس عمارتیں "نیو ماڈرن" انداز میں تعمیر کی جاتی ہیں، جن میں ایلوکوبنڈ، فائبر سے زیادہ مضبوط کنکریٹ، ماربل اور گرینائٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس گلی میں واقع دو عمارتیں اپنے انداز کی وجہ سے گلی کی دوسری عمارتوں سے ممتاز ہیں، یہ دو عمارتیں نوجوان تماشائیوں کے آذربائیجان سٹیٹ تھیٹر (نظامی72) کی عمارت جو سڑک کے اس حصے کے تعمیراتی جوڑ کیلئے بہت بڑی ہے اور فن تعمیر کے اس کلاسک انداز سے ہم آہنگ نہیں ہے اور یہ علاقے کی کل جیومیٹری کو توڑ دیتا ہے اور ریاستی کمیٹی برائے کیپٹل ایشوز (نظامی 89/87) کی عمارت، جس کی تعمیراتی قراردار "تعمیر پسندی" کے انداز میں لاگو ہوتی ہے اور گلی کے دائرے کی "کلاسیکی" یادگار کو خراب کرتی ہے۔
کھانے کے بعد ہم نیچے اترے اور شکیب نے سٹریٹ پر ایسے سیر کرانی شروع کی جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو محلے کا تعارف کرواتی ہو، وہ ہر بلڈنگ کے سامنے رکتا، جیسے وہاں کسی پرانی محبت کی یاد چھپی ہو اور تفصیل سے اس بلڈنگ کی تاریخ سناتا۔
اسی گھومنے پھرنے کے دوران ہم کچھ انڈر گراؤنڈ ڈانس کلبوں کے پاس سے گزرے اور شکیب نے اچانک ایسا سنجیدہ انداز اپنایا جیسے اب کوئی جنگی پلان بتانے والا ہو
"ادھر نہیں جانا"
میں نے حیرت سے پوچھا "کیوں؟"
اور پھر آیا۔۔ وہ واقعہ، جو سنا تو آنکھیں کھل گئیں، لیکن انداز ایسا تھا کہ ہنسی روکنا مشکل ہوگیا، شکیب نے بتایا کہ ایک پاکستانی باشندہ پہلی مرتبہ "ای ویزہ" کا فائدہ لے کر باکو آیا اور ایک بار میں جا گھسا، جونہی اس نے ٹیبل سنبھالا، تین حسین لڑکیاں لپک کر اس کے دائیں بائیں آ بیٹھیں، تھوڑی ہی دیر میں بغیر آرڈر کئے ٹیبل پر کھانے، مشروبات اور مہنگے لوازمات کا طوفان آ گیا، لڑکے نے مروت میں انہیں دعوت دیدی، وہ چند منٹ بیٹھیں اور پھر چلی گئیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، جب وہ بندہ بار سے باہر جانے لگا تو اسے بتایا گیا کہ 750 منات کا بل ادا کرو، یعنی لگ بھگ ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے، وہ بندہ چیخا اور احتجاج کیا کہ میں نے اتنا آرڈر نہیں کیا تھا اور وہ لڑکیاں بِن بلائے آئی تھیں، بار انتظامیہ نے اس کی ایک نہ سنی اور پولیس کو کال کر دی، پولیس ایسے معاملات میں لوکل بار والوں کے ساتھ ہوتی ہے اور معزز کسٹمرز کا بِل بڑھانے کی غرض سے خوب رُو لڑکیوں کو بار والوں نے ملازم رکھا ہوتا ہے، ان کا نشانہ زیادہ تر سنگل افراد ہوتے ہیں، تم بچ کر رہنا"۔