Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Baku Ki Pehli Subah

Baku Ki Pehli Subah

باکو کی پہلی صبح

اگلی صبح پرندوں کی چہچہاہٹ سے لگ بھگ ساڈھے نو بجے میری آنکھ کھلی یعنی میری نیند نے "سلیپنگ بیوٹی" کو بھی شرمندہ کر دیا، بھرپور نیند کے بعد خود کو ایسے تازہ محسوس کر رہا تھا جیسے فریج سے نکلا ہوا تربوز ٹھنڈا، تازہ اور مکمل طور پر رس سے بھرا، میں بستر میں لیٹے لیٹے تھوڑا کسمسایا، دو تین انگڑائیاں لیں، جنہیں اگر کوئی دیکھ لیتا تو یہی سمجھتا "یہ بندہ یوگا انسٹرکٹر بننے والا ہے"۔

آنکھیں ملتا ہوا جائزہ لینا شروع کیا، باکو کی صبح ایسی محسوس ہوئی جیسے قدرت نے ہر چیز فل ایچ ڈی میں بنائی ہو، کائناتی فلٹر آن، ساؤنڈ ایفکٹس مکمل اور فوٹو شاپ ڈولبی آئٹمز اپنا بھرپور جلوہ دکھا رہے ہوں، سورج نے جب پہلی کرن زمین پر بھیجی تو اس کے ساتھ ہی آسمانی وائی فائی آن ہوگیا تھا اور یہ روشنی زمین والوں کیلئے "گڈ مارننگ" میسج تھا، آسمان پر گلابی، نارنجی اور سنہری رنگ ایسے بکھرے تھے جیسے کسی آرٹسٹ نے برش چھوڑ کر رنگوں سے جگالی شروع کر دی ہو۔

پرندوں بھی باقاعدہ کوئر بنا کر محلے کی گلی میں چائے کا پہلا کپ پیتے بزرگ "کیا موسم ہے یار" کی کورس پرفارمنس دے رہے تھے، درخت کے پتوں پر شبنم کے قطرے ایسے چمک رہے تھے جیسے کسی چھوٹے قد کے ارب پتی نے اپنے زیورات پورے لان میں بکھیر دیے ہوں، سب کچھ پُرسکون، نرم ونازک اور اس احساس کے ساتھ، "آج کچھ نیا ہونے والا ہے، " یا کم از کم ناشتہ کچھ اسپیشل ہوگا، دنیا آہستہ آہستہ جاگ رہی تھی اور یہ سستی بالکل ویسی تھی جیسے ہر اتوار کی صبح گھر کا ماحول ہو۔

ماحول میں ایسی خاموشی طاری تھی جیسے پوری کائنات نے خود کو ایئرپلین موڈ پر چلا کر چائے کی چسکیاں لینی شروع کر دی ہوں، درخت کی شاخوں میں بیٹھے پرندے چہچہا کر اپنے وائیس نوٹس بھیج رہے تھے اور کبھی کبھار ہوا پتوں کو ایسے چھیڑ دیتی جیسے کوئی بچہ چپکے سے کسی سوئے ہوئے رشتہ دار کو گدگدی کر دے، پودوں کی مٹی اور شبنم کی خوشبو ایسے لگ رہی تھی جیسے قدرت نے خود "ایکو فرینڈلی پرفیوم" اسپرے کر دیا ہو اور وہ ٹھنڈی ہوا؟ ارے بھائی وہ تو ایسے نرم اور پُرکیف خواب دکھا رہی تھی جیسے اشتہارات کے بغیر نیٹ فلیکس کا فری ٹرائل ہو۔

یہ وہ لمحہ تھا جس میں بندہ بیٹھ کر سوچتا ہے: "زندگی میں اور کیا چاہیے؟" اور پھر یاد آتا ہے، "ناشتہ! " مگر اس سے پہلے شکرگزاری کی ایک قسط ضروری ہے، یہ وہ وقت تھا جہاں ہر چیز کہہ رہی تھی: "بس اس لمحے کو جیو، یوگا مت کرو، صرف سانس لو اور خوش ہو جاؤ"۔

کھڑکی سے آنے والی ہوا ایسی خوشبو دار، خالص اور آلودگی سے پاک تھی کہ مجھے شک ہونے لگا کہیں یہ سیمی پلاٹنسک سے تو نہیں آئی؟ 24 سال بعد ایسی پاکیزہ ہوا ملنا تو جیسے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ہو، میں نے فوراً کھڑکی کا پردہ اور سرکا دیا، جیسے قدرت کا وائی فائی سگنل بڑھانے کی کوشش کر رہا ہوں، تازہ ہوا جب پتوں سے چھن کر اندر آئی تو جسم کا ہر انگ مستی سے سرشار ہوگیا جیسے کسی نے ہالیووڈ میوزک بیک گراؤنڈ میں فلم والیم پر آن کر دیا ہو۔

"Its a new day, baby!"

ماحول ایسا پُرسکون تھا جیسے محلے کی خرانٹ آنٹی نے سب کو "شادی ختم، اب آرام کرو" کا اعلان کر دیا ہو، دور کہیں پرندے اپنی ریڈیو نشریات میں مصروف تھے، ایک نے تو شاید میرا نام لے کر گانا بھی گا دیا تھا، چہچہاتے ہوئے پرندے ایک مدت بعد دیکھ اور سن رہا تھا، قدرت کے یہ برانڈ ایمبیسڈر مجھے بہت بھاتے ہیں، پتوں کی سرسراہٹ ایسی تھی جیسے درخت آہستہ آہستہ کوئی راز کی باتیں کر رہے ہوں، شاید یہی کہ کون سا پودا رات کو سب سے زیادہ خراٹے مار رہا تھا، جیسے ہی ہوا کے جھونکے اندر آئے، میں نے ایک گہرا سانس لیکر تازہ ہوا اپنے پھیپھڑوں میں بھری۔

"واہ! یہ ہوا تو اللہ میاں نے اسپیشل پیک میں بھیجی ہے! "

شبنم کی خوشبو کو سنگھتے ہوئے میرا چہرہ اس بچے کی مانند کھل اٹھا جسے عیدی میں پانچ سو کا نیا کرارا کرنسی نوٹ ملا ہو، آنکھیں بند کرکے دوسری سانس لی تو منہ سے بے اختیار نکلا "اوہو ہو ہو ہو، یہ تو وہی خوشبو ہے جو سیمی پلاٹنسک کے بعد کبھی دوبارہ نہ ملی تھی، نہ ہوا میں اور نہ ہی کسی رومانس میں"۔

میں نے کھڑکی کا پردہ ایسے ایک جھٹکے سے کھینچا جیسے کوئی کچن کا دروازہ کھول کر برتنوں کو دھمکی دیتا ہے: "سب صاف ہونے والے ہو! " اور جیسے ہی درختوں کے بیچ سے ہوا کے جھونکے اندر آئے، پورا کمرہ ایسے خوشبو سے بھر گیا جیسے کسی نے عطر والی بوتل کھول دی ہو، ایسا محسوس ہوا کہ جسم کا ہر جوڑ قدرت کے فری وائی فائی سے جُڑ گیا ہو، ایک اور سانس لیتے ہوئے کہنا پڑا "اب اگر کوئی کہے کہ زندگی خوب صورت نہیں تو اس کا ناک فقط خراٹے لینے کیلئے ہے"۔

دل چاہا کہ شکرانے کے طور پر باہر جا کر درخت کو گلے لگاؤں، لیکن پھر خیال آیا "یہ ہوٹل ہے، باکو کا سنٹرل پارک نہیں، احتیاط لازم ہے مبادا لوگ یہ نہ سمجھیں کہ کہیں کوئی نئی سائنس شروع ہوگئی ہے۔ " کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر میں درختوں کو ایسے سانسوں سے نواز رہا تھا جیسے کوئی یوگا انسٹرکٹر قدرت کے ساتھ ون آن ون سیشن کر رہا ہو، لمبے لمبے سانس لے کر میں نے ماحول کو اور ماحول نے مجھے اندر تک فِیول کر دیا یعنی فطرت کی فری ریفریشمنٹ مکمل۔

پھر میں نہانے کی نیت سے واش روم میں داخل ہوا، بہترین سہولیات سے آراستہ واش روم ایسے چمک رہا تھا جیسے آج ہی فیتہ کاٹ کر افتتاح ہوا ہو، گرم پانی کا نل کھولا تو کسی شاہی حمام کا احساس ہوا، گرم پانی جسم کے مساموں پر پڑا تو جسم نے وہ تازگی محسوس کی جیسے موبائل کو پوری رات چارج کرنے کے بعد بیٹرو 100٪ شو ہو رہی ہو۔

پارک پلازہ اِن ہوٹل کا کمرہ نمبر 317 واقعی اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت، خاص طور پر اس کا باتھ روم نہایت شاندار تھا، تازہ نصب شدہ، جدید اسیسریز نے نہ صرف سہولت بلکہ خوبصورتی میں بھی اضافہ کیا، پتھریلا فرش دیدہ زیب ہونے کے ساتھ ساتھ عملی بھی تھا، اتنا محفوظ کہ پانی ہونے کے باوجود پھسلنے کا کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا۔

بھرپور غسل کے بعد کپڑے پہنے اور ناشتے کی نیت سے کمرے سے باہر نکلا، لفٹ میں سوار ہونے لگا تو سامنے نصب آئینہ دیکھ کر یاد آیا کہ اب تک کل والے کپڑے ہی پہن رکھے تھے، باہر گھومنے کیلئے دوسرا لباس پہننا چاہیئے، میں ایسے واپس مڑا جیسے فلم میں ہیرو کوئی مشن یاد آنے پر گھومتا ہے، دھڑام، دھڑ، دھڑ، دھم، کمرے میں سے کپڑے اٹھائے اور دوبارہ لفٹ کی طرف چل دیا۔

Check Also

Pakistani Jahazon Ne Rafael Kaise Giraye

By Saqib Ali