Taleemi Nizam Aur Taleemi Idaron Ki Hifazat
تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں کی حفاظت
شروع میں جب کورونا کی پہلی لہر برقرار تھی تب میڈیا نے کورونا کے المیہ کو عوام کے ذہنوں میں ایسے دفن رکھا تھا جیسے بس چند لمحوں میں ہم خداوندی تعالیٰ سے ملنے والے ہے یہ سب اپنے راٹینگ کے خاطر کررہے تھے۔ پہلی لہر میں ملک بھر میں لاک ڈان نافذ کیا گیا، تمام تر کاروباری نظام کو لاک ڈان اور ایس او پیز کے تحت چلا رہے تھے، ملک بھر کے عوام میں ماسک کا اہمیت بڑھ گیا اور اسے پہننا شروع کیا، ہسپتال میں بیڈز اور وینٹی لیٹرز کم پڑھ گے، کورونا سے زیادہ میڈیا نے عوام کے دلوں میں ڈر ڈال دیا تھا۔ لیکن اس نئی لہر میں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آرہا عوام اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں وہ اگرچہ ٹی وی چینل پر کورونا کے بڑھتے رپورٹ سن رہے ہے لیکن انہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑھتا اس کی وجہ کیا ہے کہ شروع میں ہر کسی کو دلچسپی تھی اور اب صرف لوگ دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں؟
کیا عوام کورونا کو ایک سیاسی سازش سمجھ رہے ہیں یا پھر اسے ایک پروپیگنڈہ سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں۔ کورونا کی اس نئی لہر کا شکار صرف تعلیمی ادارے کیوں ہے؟ ملک کے کیسز میں جب بھی رپورٹس کا اضافہ ہوتا ہے تب وہ تعلیمی اداروں کو بند کرواتے ہیں اگر یہی کیسز تعلیمی اداروں میں نظر آجاتے تب بند کروا سکتے ہیں لیکن یہ اگر اداروں سے ہٹ کر پبلک پلیس سے مل جائے تو آپ اسی جگہ پر اپنے ہدایات دیں سکتے ہیں۔ اس ملک کے تعلیمی نظام پہلے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اسے بنانے والا تو کوئی نہیں الٹا اسے اور پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کبھی پاکستان کے 22 ملین سے زیادہ بچوں کے مستقبل بارے میں سوچا ہے جو تعلیم جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں؟ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو بند کروایا جاسکتا ہے تاکہ ہمارے بچے کورونا جیسی بیماری سے محفوظ ہو اس بیماری کا کیا کریں جو پچھلے کہی سالوں سے ہمارے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ یہ بھی تو خطرناک بیماری ہیں۔ وہ بچے جو کم عمری میں فیکٹریوں میں کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں انہیں کبھی آرٹیکل 11 کے تحت ان پر ایکشن لیا ہے؟
ملک بھر میں پی ڈی ایم کے جلسے ہوسکتے ہیں جہاں لاکھوں لوگوں کا ہجوم دیکھنے کو ملے گا، اور سٹیج پر ہمارے ممبران اسمبلی کے اراکین بھی موجود ہوں گے، انکو تو کوئی کورونا نظر نہیں آرہا۔ یہ عوام کو کس الجھن میں ڈال رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو بند کرنے سے نہ صرف تعلیمی نظام کو نقصان ہوگا بلکہ بچوں کے ذہنوں میں تعلیم کی ناقدری بھی بڑھی گی۔ انہیں پھر اپنے شعبوں سے منسلک سبجیکٹس میں رکاوٹیں بھی درپیش ہوں گے جو مستقبل میں کسی خطرے سے کم نہیں۔
اگر اداروں کو بند کرنے کے بعد یہ لوگ آئن لائن کلاسسز کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کے بیشتر ایسے علاقے ہیں جہاں لوگ انٹرنیٹ اور لوڈشیڈنگ جیسے مشکلات کا سامنا کررہے ہیں جن میں سے صوبہ بلوچستان پہلی نمبر پر ہے جہاں انٹرنیٹ جیسے سہولت کی دور کی بات یہاں لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ایسے علاقے ہیں جہاں بجلی جیسے سہولت سے محروم ہیں۔ اگر بچوں کی صحت کی اتنی فکر تو زرا انکے مستقبل کا بھی خیال رکھیں جوکہ یہ ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں۔ اگر پی ڈی ایم کے جلسے ہوسکتے ہیں تو ہمارے اداروں میں مقیم بچے بھی ایس او پیز کے تحت اپنے کلاسسز لیے سکتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کو زوال کی طرف لے جارہے ہیں لہذا ملک کے باشعور، مفکر، اور تعلیم نظام سے منسلک لوگوں سے اپیل ہے کہ اس پر غور فرمائیں تاکہ ہمارے بچے اس آفت سے بچ سکیں۔