Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asghar Shamall
  4. Eagle Squad

Eagle Squad

ایگل سکواڈ‎

بلوچستان جوکہ ہمیشہ سے خون ریزی کا شکار رہا ہے، ایک ایسا صوبہ جہاں آئے روز ہم اپنے اس دھرتی کے نوجوانوں کی لاشیں اپنے کندھوں پر اُٹھاتے ہیں جوکہ ایک معمول بن چکا ہے۔ جن کے باشندے کبھی دہشتگردوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں کبھی ٹارگٹ کلنگ کے شکار ہوجاتے ہیں کبھی بم دھماکوں میں ہلاک ہوجاتے ہیں، یا پھر ہم اس قسم کے محافظوں کے ہاتھوں انکا نشانہ بن جاتے ہیں۔

ہم اب بھی ظلم کے شکار ہیں۔چند دن قبل سریاب روڈ پر ایگل سکواڈ کی فائرنگ سے ایک شہری جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا، دونوں آپس میں چچازاد تھے، ورثا کا کہنا ہے کہ دونوں بھائی افطاری کے بعد گھر کے طرف آرہے تھے کہ ایگل سکواڈ نے انکی گاڑی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں فیضان جتک جاں بحق جبکہ داد شاہ زخمی ہے۔

گاڑی نہ روکنے پر انہوں نے (ایگل سکواڈ) نے اس نوجوان پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں وہ چل بسا۔ ایک شہری چاہیے جتنی بھی بڑی غلطی کرنے جا رہے ہو آپکو چاہیے کہ اسے روکنے کی کوشش کرے، انکا پیچھا کرے، یا پھر ٹریفک پولیس والوں کو اطلاع دے اگر پھر بھی یہ سب کچھ کرنے کی زحمت نہیں کرسکتے یا حالات مشکل تر ہوتا جارہا ہو پھر آپ اپنے گن کو زیرِ استعمال لاسکتے ہیں، استعمال سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ آپ اسکے پیشانی کو نشانہ بنائے اگر آپکا فائر سیدھا پیشانی کو نشانہ بنا سکتا ہے تو گاڑی کے ٹائر بھی آپکے نشانے سے کبھی چھوٹ نہیں سکتے آپکو چاہیے تھا کہ آپ ٹائر پر فائرنگ کرتے تاکہ گاڑی کو روکا جائے لیکن یہاں تو آپکے جذبات کو ٹھیس پہنچا ہے آپ ایسا نہیں کرسکتے۔

اس واقعے کو دیکھ کر ایسا ہر گز نہیں لگتا کہ ایگل سکواڈ والوں نے اس وجہ سے نوجوان کو نشانہ بنایا کہ ان لوگوں نے قانون کی خلاف ورزی کی اس سے یہ لگتا ہے کہ انکے جذبات کو ٹھیس پہنچا انکو یہ گوارا نہیں ہوا کہ اس شخص نے گاڑی کیوں نہیں روکی اور انہوں نے فائرنگ کی۔ یہ آخر قانون کے رکھوالے ہیں یا قانون کے دھجیاں اڑانے کے لئے کوشاں ہیں؟

ہر سال انہیں ٹریننگ کے لئے بجٹ پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ لوگ مضبوط اور مستحکم بنے تاکہ یہ شہریوں کو زیادہ تکلف دینے کے بجائے ایک معقول راہ نکالے، تاکہ یہ لوگ ہمیں محفوظ کرسکے، لیکن اس واقعہ کو دیکھ ایسا ہر گز نہیں لگتا کہ یہ لوگ ہمارے محافظ ہیں یہ لوگ تو ہمیں ہی اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ آئے روز ہمیں انکا احمقانہ عمل اور کرتوت سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتے ہیں اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ایک جنگلی کو وردی پہنایا ہو نہ کہ ایک محافظ کو۔

کورونا کی تیسری لہر کافی خطرناک ثابت ہوچکی ہے اور حکومت نے شہر میں لاک ڈان نافذ کرنے کا نوٹس جاری کیا کہ تمام دکانیں 6 بجے سے پہلے بند رکھے۔ کچھ دن پہلے ایک کمشنر نے ایک شاپنگ مال کا دورہ کیا وہاں کچھ دکانیں کھولے تھے جب گارڈز وہاں پہنچے تو اِنہوں نے دکانداروں پر فائرنگ کی جس میں کافی لوگ زخمی ہوگئےتھے، اب زرا سوچئے صرف اس بات پر فائرنگ کی کہ انہوں نے دکان کیوں بند نہیں کی تھی، اسے اب غنڈہ گردی کا نام نہیں تو اور کیا نام دیں؟ انھیں اندازہ نہیں کہ قانون ہاتھ میں لینے والے آپ ہی ہیں، وردی اور گن ہاتھ میں رکھنے سے یہ ہر گز مطلب نہیں کہ آپ قانون کے مالک بن گئے جو چاہے کرے جہاں چاہے آپ لوگوں کو نشانہ بنائے۔ جب کہی ایک شہری کسی جرم میں ملوث ہوتا ہے تو ایک ٹرینڈ چل رہا ہوتا ہے کہ اس نے آئن تھوڑا ہے اس نے قانون کو ہاتھ میں لیکر لوگوں کی نیند حرام کی یہ سب کچھ تو ہمیں دیکھاتے ہیں لیکن اپنے ظلم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، زرا اپنے گریبان میں بھی جھانک کہ آپ کہاں تک پانی میں ڈوبے ہیں۔

بلوچستان حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی فورسز کو اس قسم کے اقدامات سے انھیں باز رکھےانھیں اپنی ڈیوٹی کا صحیح استعمال کرنے کا طریقہ بتائیں تاکہ آئندہ پھر کبھی انکے لاپرواہی سے کسی شہری کو اس قسم کے ظلم کا نشانہ نہ بنائے۔ اس قسم کے واقعات نہ صرف عوام کے لئے خدشہ ہے بلکہ حکومت وقت کے لئے بھی تباہی کا باعث ہے۔

Check Also

Tareekh Se Sabaq Seekhiye?

By Rao Manzar Hayat